کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 112
میں ختم کرو۔ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی رخصت نہیں دی۔[1] چنانچہ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے بعض اہل علم نے قرآن مجید کو تیس پاروں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ہر پارے کے آٹھ أرباع ہیں، پھر انہوں نے ہر پارے کے دو دو حزب بنا دئیے اور ہر حزب چار أرباع پر مشتمل ہے۔ اہل مشرق نے اس تقسیم پر عمل کیا۔ جبکہ اہل مغرب نے دیگر مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اس تقسیم سے مختلف ایک دوسری ترتیب و تقسیم اختیار کر لی اور اس پر عمل شروع کر دیا۔ ایسے ہی بعض اہل علم نے قاری کے لیے فہم آیات پر معاونت کی غرض سے وقف اور وصل کی علامات مقرر کر دیں۔ کیونکہ معنی مکمل ہو جانے پر وقف کرنا اور معنی مکمل نہ ہونے پر وصل کرنے کا فہم اور تدبر کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ اسی طرح کلمات سجدات پر دلالت کرنے والی علامات وضع کی گئیں جو صفحہ کی ایک جانب لگائی گئی ہیں۔ مصحف کی اس تقسیم اور اس کی ذیلی علامات کو سب سے پہلے وضع کرنے والے کے بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا حکم عباسی خلیفہ مامون الرشید (ت۲۱۸ھ) نے دیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا حکم علماء کے مشورہ سے حجاج بن یوسف نے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض أرباع یا أحزاب کی ابتداء قصص یا متعلقہ أحکام کے درمیان سے ہوتی ہے۔ جیسے: ﴿ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ ﴾ (النساء:۲۴) سے حزب کی ابتداء ہو رہی ہے حالانکہ یہ آیت مبارکہ اپنے سے ماقبل آیت مبارکہ ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ ....﴾کے معنی کو مکمل کرنے والی ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ شادی شدہ عورت کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔ عورت ایک وقت میں صرف ایک خاوند کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے۔
[1] ترمذی: ۴/۲۶۵، وقال: حدیث حسن صحیح.