کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 109
چنانچہ زیاد نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے یہ ترکیب سوجھی کہ ایک شخص کو، امام ابو الأسود رحمہ اللہ کے راستے میں بٹھا دیا، اور اس کو حکم دیا کہ جب تیرے پاس سے ابو الأسود رحمہ اللہ گزرے، تو قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دینا، اور عمداً اس میں غلطی کر دینا، اس شخص نے ایسے ہی کیا، جب امام ابو الأسود رحمہ اللہ اس آدمی کے پاس سے گذرے، تو اس نے قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دی اور پڑھا: ﴿ أَنَّ اللّٰهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ ﴾ (التوبہ:۳) (یعنی لفظ ﴿وَرَسُوْلہُ﴾ کے لام کو کسرہ کے ساتھ پڑھا)، جس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ مشرکوں اور اپنے رسول سے بری الذمہ ہے۔‘‘
جب امام ابو الأسود رحمہ اللہ نے سنا تو چونک کر کہا: معاذ اللہ! اللہ اپنے رسول سے کیسے بریٔ الذمہ ہو سکتا ہے۔ پھر فوراً زیاد کے پاس گئے اور کہا کہ میں آپ کا مطالبہ قبول کرتا ہوں اور قرآن مجید کے اعراب لگانے کا کام شروع کرتا ہوں۔ آپ میرے پاس تیس آدمی روانہ کر دیں۔ زیاد نے تیس (۳۰) آدمی امام ابو الأسود رحمہ اللہ کے پاس بھیج دئیے۔ انہوں نے ان تیس میں سے پہلے دس آدمی منتخب کیے، پھر ان دس میں سے باری باری ایک ایک کا انتخاب کرتے رہے یہاں تک قبیلہ عبد القیس کے ایک آدمی کو منتخب کر لیا اور اعراب لگانے کا کام شروع کر دیا۔ آپ نے اس شخص کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا:
تم مصحف کی روشنائی سے مختلف روشنائی لے لو، اور میرے ہونٹوں کا دھیان رکھو، جب میں فتحہ کے لیے ہونٹ کھولوں تو حرف کے اوپر ایک نقطہ لگا دو، جب ہونٹوں کو گول کروں (یعنی ضمہ پڑھوں) تو حرف کے سامنے ایک نقطہ لگا دو، اور جب ہونٹوں کو جھکاؤں (یعنی کسرہ پڑھوں) تو حرف کے نیچے ایک نقطہ لگا دو، اور جب تنوین پڑھوں تو ایک کی بجائے دو دو نقطے لگا دو۔