کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 108
اسباب ضبط:
جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ ابتداء ً کتابت میں مصاحف نقاط و حرکات سے خالی تھے، اور لوگ ان مصاحف سے بلامشقت بآسانی تلاوت کر لیا کرتے تھے اور متشابہ حروف و کلمات میں اپنی عربی فطرت سلیمہ کے سبب فرق کر لیا کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے قرآن مجید سیکھا تھا جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔
جب فتوحات اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہو گیا اور عرب و عجم کا اختلاط بڑھا تو عجمی نو مسلم افراد، اعراب کی واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے قرآن مجیدمیں کثرت سے غلطی کرنے لگے، جس سے ایسی علامات وضع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، جو رسم عثمانی کو چھیڑے بغیر کلمات قرآنیہ کے صحیح نطق پر راہنمائی کر سکیں۔
امام ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ (ت۴۴۴ھ) امام محمد بن قاسم الأنباری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’سیدنا أمیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے گورنر زیاد کو پیغام بھیجا کہ اپنے بیٹے عبداللہ بن زیاد کو میرے پاس بھیجو۔ جب عبید اللہ بن زیاد، سیدنا أمیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور ان کے ساتھ گفتگو کی تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے محسوس کیا کہ وہ اپنی کلام میں غلطیاں کرتا ہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو اپنے باپ زیاد کے پاس واپس لوٹا دیا اور ان کو خط لکھ کران کے بیٹے کی غلطیوں پر ملامت کی اور فرمایا: کیا عبید اللہ جیسا لڑکا بھی ضائع کر دیا جائے گا۔ اس واقعہ کے سرزد ہوجانے کے بعد والی ٔ بصرہ زیاد نے نحو کے امام ابو الأسود الدؤلی رحمہ اللہ (ت۶۹ھ) کو پیغام بھیجا اور فرمایا:
عجمیوں نے لغت عرب کو بگاڑ دیا ہے۔ آپ ایسے اصول و قواعد وضع کر دیں، جن سے لوگ اپنی کلام کی اصلاح کر لیں اور کلام اللہ کو درست پڑھ سکیں۔ امام ابو الاسود رحمہ اللہ نے زیاد کے اس مطالبہ کو پورا کرنے سے انکار کر دیا اور اسے پورا کرنا مناسب نہ سمجھا۔