کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 104
۲۔ تلاوت میں آسانی کی غرض سے رسم عثمانی کو چھوڑ کر موجودہ رسم املائی کو اختیار کرنے سے ایک نئی تغییر پیدا ہو جائے گی۔ کیونکہ رسم املائی ایک قابل تغییر اصطلاح ہے، جو کسی دوسری اصطلاح سے تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس سے قرآن مجید کے بعض حروف میں کمی و زیادتی واقع ہو گی اور تحریف کا دروازہ کھل جائے گا اور سینکڑوں سال گذرنے کے بعد مصاحف میں اختلاف واقع ہو گا۔ جس سے دشمنان اسلام کو قرآن مجید میں طعن کرنے کا موقع مل جائے گا۔ جبکہ اسلام اسباب فتن اور شر کے ذرائع سے بھی منع فرماتا ہے۔
۳۔ کتابت مصاحف میں رسم عثمانی کا التزام نہ کرنے سے، قرآن مجید لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بن جائے گا۔ ہر انسان اپنے ذہن میں پیدا ہونے والی سوچ کو نافذ کرنے کی تجویز پیش کرے گا، چنانچہ بعض لوگ اسے لاتینی زبان یا دیگر زبانوں میں کتابت کرنے کی تجویز بھی دیں گے۔ جس میں بڑے بڑے خطرات مخفی ہیں اور مفاسد کو دور کرنا منافع کے حصول پر مقدم ہے۔
مذکورہ اسباب کی بنیاد پر مجلس نے فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجلس ھیئۃ کبار العلماء کی یہ رائے ہے کہ کتابت مصاحف میں رسم عثمانی کو باقی رکھا جائے اور اسے جدید قواعد املاء کے مطابق کرنے کے لیے اس میں تبدیلی نہ کی جائے، تاکہ قرآن مجید کو تحریف سے محفوط کیا جا سکے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و أئمہ سلف کی اتباع کی جا سکے۔‘‘[1]
[1] ھیئۃ کبار العلماء.