کتاب: قرٖآن مجید کا رسم و ضبط - صفحہ 10
کی تعلیم کے مطابق اس کی ترتیب سے بخوبی آگاہ تھے۔
قرآن مجید کو ایک جگہ جمع نہ کرنے کی حکمت شاید یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں موت تک، مسلسل وحی نازل ہو رہی تھی اور حالات کے مطابق بعض آیات منسوخ بھی کی جا رہی تھیں۔ اس صورتحال میں اگر قرآن مجید کو ایک جگہ جمع اور مرتب کر دیا جاتا تو اختلاف واختلاط کا خدشہ پیدا ہو جاتا۔ چنانچہ حق باری تعالیٰ نے زمانۂ نسخ کے اختتام تک اسے صحابۂ کرام کے دلوں میں محفوظ رکھا۔ یہاں تک کہ خلیفۂ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اسے ایک جگہ جمع کر دیا گیا۔[1]
جب خلیفۂ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں فتوحات اسلامیہ کا دائرہ وسیع ہو گیا تو عرب وعجم کا باہمی اختلاط شروع ہوا۔ اس دور میں ہر شہر کے لوگ اپنے درمیان مشہور کسی صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قراءت سیکھتے تھے، اور مختلف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مختلف وجوہ کے ساتھ انہیں پڑھایا تھا۔ جب وہ کسی ایک جگہ جمع ہوتے اور ایک دوسرے کی قراءت سنتے تو ہر شخص اپنی قراءت کو صحیح اور دوسرے کی قراءت کو غلط قرار دیتا۔ جس سے فتنہ پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اس صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر خلیفۂ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے عہد صدیقی میں جمع کیے گئے مصحف سے متعدد مصاحف تیار کروائے اور مختلف اسلامی شہروں کی طرف روانہ کر دئیے۔
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں لکھے گئے ان مصاحف کے بعض کلمات کا رسم، رسم املائی کے مخالف ہے… جیسا کہ آگے ہم بیان کریں گے، ان شاء اللہ… چنانچہ یہ رسم، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نسبت سے رسم عثمانی کے نام سے مشہور ہو گیا۔
جب سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے عہد میں، اسلام میں داخل ہونے والے غیرعربوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اور کلام عرب میں غلطی عام ہو گئی تو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ غلطی قرآن مجید کی حدود تک نہ پہنچ جائے۔ چنانچہ رسم عثمانی کو ہاتھ لگائے بغیر صحیح نطق
[1] بخاری: کتاب فضائل القرآن.