کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 40
اس لیے انسانوں تک پہنچانے والا رسول بھی اسے تبدیل نہیں کر سکتا،جیسا کہ ارشاد باری ہے:
﴿ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ﴾
’’فرما دیجیے: میرے بس میں نہیں ہے کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدل ڈالوں۔میں تو بس جو چیز میری طرف وحی کی جاتی ہے اُسی کی پیروی کرتا ہوں۔‘‘[1]
نزولِ قرآن کے مقاصد:
جب اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو آباد کرنے کا ارادہ فرمایا اور اس میں حضرت آدم وحواi کو بھیجا تو فرمایا:
﴿ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴿١٢٣﴾ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا﴾
’’تم دونوں اکٹھے (آدم وابلیس) یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ پس اگر تمھارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ راہِ راست سے پھرے گا نہ ناکام ہو گا (نہ شقاوت وبدبختی کا شکار ہو گا) اور جو میرے ذکر سے اعراض کرے گا، اس کی گزر بسر تنگ ہو گی۔‘‘[2]
اس وعدۂ الٰہی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اولادِ آدم کی ہدایت ورہنمائی کے لیے دینِ اسلام کو ضابطۂ حیات اور دستورِ زندگی بنا کر بھیجنے کا آغاز فرمایا۔ اور اس ضابطۂ حیات اور دستورِ زندگی کی تکمیل اپنے آخری صحیفۂ ہدایت کے ذریعے سے کر دی جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے انسانوں تک پہنچااور جو انسانوں کے لیے برہان، نور، موعظہ، شفاء، ہدایت اور رحمت ہے
[1] یونس15:10
[2] طٰہٰ 124,123:20