کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 39
جیسا کہ فرمایا:
﴿ اللّٰهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ﴾
’’اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کسے سونپے۔‘‘[1]
بسا اوقات یہ صورت پیش آتی ہے کہ کسی علم واطلاع کا اصل منبع اور سرچشمہ تو پورے طور پر صاف اورمحفوظ ہوتا ہے لیکن دوسروں تک پہنچنے کا وسیلہ قابلِ وثوق اور لائقِ اعتماد نہیں ہوتا۔ اپنے اصل سرچشمے سے چیز صحیح اور محفوظ روانہ ہوتی ہے لیکن اپنے منتہیٰ تک پہنچتے پہنچتے اس میں تبدل وتغیر ہو جاتا ہے۔
لیکن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک قرآنِ مجید پہنچنے کا ذریعہ اور واسطہ وحیِ ٔالٰہی ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ﴾
’’وہ تو بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے، اسے ایک بڑی قوتوں والی شخصیت (جبریل) نے سکھایا ہے۔‘‘[2]
نیز فرمایا:
﴿ ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ ﴿٢٠﴾ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ ﴾
’’وہ بڑی قوت والا اور صاحبِ عرش کے ہاں بڑا درجہ رکھنے والا ہے۔ وہاں اس کا کہا مانا جاتا ہے اور وہ قابلِ اعتماد ہے۔‘‘[3]
اور اس کی قراء ت اور بیان کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے لی ہے:
﴿ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ﴾
’’اس (وحی) کو لینے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں تا کہ آپ اسے جلد از جلد لے سکیں بلکہ اسے (آپ کے سینے میں) جمع کرنا اور آپ کو پڑھانا ہمارے ذمے ہے۔‘‘ [4]
[1] الأنعام 124:6
[2] النجم 5,4:53
[3] التکویر 21,20:81
[4] القیٰمۃ17,16:75