کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 38
’’(بھلا)جس نے پیدا کیا اسے معلوم نہیں، وہ تو از حد باریک بین اور بڑا باخبر ہے۔‘‘[1]
اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر حاوی ہے جیسا کہ فرمایا: ﴿ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾
’’(اس نے) ہر چیز کا اپنے علم سے احاطہ کر رکھا ہے۔‘‘ [2]
اور فرمایا: ﴿ لَّا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنسَى﴾
’’میرا رب نہ بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے۔‘‘ [3]
اور فرمایا: ﴿ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ﴾
’’وہ غیب اور حاضر کا جاننے والا ہے۔‘‘[4]
﴿ يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ﴾
’’آسمانوں میں اور زمین میں ذرہ برابر کوئی چیز بھی اس سے چھپی نہیں رہ سکتی۔‘‘ [5]
قرآنِ حکیم اللہ تعالیٰ کے علم سے ماخوذ ہے، اس لیے وہ اس کی خصوصیات کا حامل اور اس کی صفات کا مظہر ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَلَقَدْ جِئْنَاهُم بِكِتَابٍ فَصَّلْنَاهُ عَلَىٰ عِلْمٍ هُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾
’’اور ہم نے ان کے سامنے ایسی کتاب پیش کی ہے جسے ہم نے اپنے علم و آگہی سے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو ایمان والوں کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔‘‘[6]
انسانوں تک قرآن پہنچنے کا واسطہ:
انسانوں تک قرآنِ مجید بلا واسطہ نہیں پہنچا ، اس لیے کہ ہر انسان اس کے تحمل اور قبول کی صلاحیت و استعداد سے بہرہ مند نہیں ہے۔
[1] الملک 14:67
[2] طٰہٰ 98:20
[3] طٰہٰ 52:20
[4] الحشر 22:59
[5] سبا 3:34
[6] الأعراف 52:7