کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 36
(تورات) کے صحیفے برابر غارت گری اور آتش زدگی کا نشانہ بنتے رہے۔ یہودی مؤرخین کے اعتراف کے مطابق تخریب و تحریف کا یہ کام تین دفعہ ہوا:
(1)پہلی دفعہ جب بابل کے بادشاہ بُخْت نَصر نے ریاست یہودیہ پر586 ق م میں حملہ کیا۔ بیت المقدس کو آگ لگا دی جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے تورات کی تختیاں اور آلِ موسٰی وآلِ ہارون کے تبرکات محفوظ کررکھے تھے۔ بعد میں انھیں حضرت عزیر علیہ السلام نے اپنے حافظے کی مدد سے دوبارہ لکھوایا، پھر ان میں اضافے ہوتے رہے۔
(2)دوسری دفعہ انطاکیہ کے بادشاہ انطوکوس ( Antiochusive ) چہارم نے بیت المقدس پر 168ق م میں حملہ کیااور صُحُفِ مقدسہ کو جلا دیا۔
(3)تیسری دفعہ رومن سپہ سالار ٹائٹس (Titus)نے بیت المقدس پر 70 ق م میں حملہ کیا اور اس کو ہیکلِ سلیمانی سمیت برباد کر ڈالا۔
عہد نامۂ جدید (انجیل) کا معاملہ عہدِ عتیق سے بھی گیا گزرا ہے۔ یہ انجیلیں مذہبی کونسلوں اور مختلف زمانوں میں برابر تغیر وتبدل اور اصلاح وترمیم کا نشانہ بنتی ر ہیں۔یوں یہ آسمانی کتابیں وحی والہام پر مبنی ہونے کے بجائے سِیَر وسوانح اور واقعات وحکایات کا مجموعہ بن گئی ہیں۔[1]
لیکن عہدِ قدیم اور عہدِ جدید (بائبل، کتاب مقدس) کی کتابوں کے برعکس قرآنِ مجید جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے، اس کی حفاظت اور اسے ہر قسم کی تحریف وترمیم اور کمی وبیشی سے پاک رکھنے کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾
’’ہم ہی نے ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ ‘ ‘[2]
[1] تفصیل کے لیے دیکھیے’’مختصر اظہارالحق‘‘ کا ترجمہ از شیخ صفی الرحمن مبارکپوری ، پہلا باب اور ’’بائبل، قرآن اور سائنس‘‘ کے بائبل سے متعلقہ ابواب
[2] الحجر 9:15