کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 35
اس چیلنج میں اعجاز کا ایک پہلو یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں یہ پیش گوئی بھی موجود ہے کہ وہ قرآن کا یہ چیلنج قبول نہیں کر سکتے اورباہم مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جیسے سورۂ بقرہ میں فرمایا:
﴿ وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللّٰهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٢٣﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَلَن تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ﴾
’’اور اگر تمھیں اس کلام کے بار ے میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس کی ہم پلہ ایک سورت ہی بنالاؤ، اور اللہ کے سوا جتنے تمھارے حمایتی ہیں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کر سکتے اور کر بھی نہ سکو گے تو تم آگ سے بچو۔‘‘[1]
اس چیلنج کے قبول کرنے کے محرکات اور دواعی موجود تھے اور اب بھی موجود ہیں لیکن آج تک کوئی شخص، کوئی گروہ اورکوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکی اور نہ آئندہ کر سکے گی۔
قرآن کی فصاحت وبلاغت کا اعجاز الفاظ، تراکیب، اسلوب، نظم، قصص اور امثال ہر اعتبار سے درخشاں ہے۔[2]
حفاظتِ قرآن:
قرآن سے پہلے کے آسمانی صحیفے اور کتابیں ہمیشہ تحریف وتغّیر کا نشانہ اور تلف وتباہی کا ہدف بنتے رہے کیونکہ وہ ایک خاص اور محدود مدت کے لیے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے حفظ وبقا کی ذمہ داری خود نہیں اُٹھائی، اور یہ تاریخی طور پر ثابت شدہ ایک علمی حقیقت ہے جس کا اعتراف خود ان لوگوں نے بھی کیا ہے جن کے پاس وہ صحیفے اور کتابیں آئی تھیں۔ عہدِ عتیق
[1] البقرۃ 24,23:2
[2] تفصیل کے لیے دیکھیے التحریر والتنویر المعروف بتفسیر ابن عاشور، المقدمۃ العاشرۃ في إعجاز القرآن۔