کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 34
فصاحت وبلاغت ان کا پیدائشی وصف اور کمال تھا جس میں وہ اپنے آپ کو ساری دنیا سے ممتاز سمجھتے تھے بلکہ دوسروں کو اپنے مقابلے میں عجمی (گونگے) قرار دیتے تھے۔ قرآنِ مجید نے ان کو مقابلے کا چیلنج دیا۔ اگر قرآن کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تمام انسانوں میں سب سے زیادہ با صلاحیت عرب ہی تھے۔ عرب سرداروں نے قرآن اور صاحبِ قرآن کو مغلوب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ وہ مسلمانوں کی جان ومال اور عزت و آبرو سمیت ہر متاع پر حملہ آور ہوئے لیکن یہ جرأت نہ کر سکے کہ قرآن کے مقابلے میں کوئی کلام پیش کریں۔ اس کے برعکس تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی خصوصی نجی مجالس ومحافل میں اس کے بے مثل ہونے کا خود اعتراف کیا۔ ولید بن مغیرہ بنو مخزوم کا ایک فرد تھا۔ اس نے کہا: ’’اللہ کی قسم! اس کے قول میں بڑی شیرینی اور بڑی رونق وشادابی ہے۔‘‘ ایامِ حج کے موقع پر اس نے لوگوں کو جمع کیا اور کہا: ایامِ حج میں عرب کے مختلف وفود آئیں گے، اس لیے محمد کے بارے میں کوئی مناسب بات طے کر لو، پھر تم میں سے کوئی اس بات کی مخالفت نہ کرے۔ لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کہیں، یہ کاہن ہے، یہ مجنون ہے، یہ شاعر ہے، یہ جادوگر ہے۔ مغیرہ نے ہر بات کو رد کر دیا۔ جب کوئی بات قابل قبول نہ ٹھہری تو لوگوں نے مغیرہ سے کہا: تم ہی کوئی بات بتا دو تو اس نے عاجز آکر کہا: ’’بس یہی کہو کہ وہ جادوگر ہے کیونکہ اس نے ایسا کلام پیش کیا ہے جس سے باپ بیٹے، بھائی بھائی، شوہر بیوی غرضیکہ خاندان بھرمیں پھوٹ پڑ جاتی ہے۔‘‘[1] اس قسم کے واقعات عتبہ بن ربیعہ، نضر بن حارث وغیرہ سے بھی منقول ہیں۔ مزید برآں
[1] المستدرک للحاکم، التفسیر، سورۃ المدثر507/2: ، حدیث3872: اور تفصیل کے لیے دیکھیے السیرۃ النبویۃ لإبن ھشام271,270/1: