کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 32
٭ اسی طرح موحّد اور مطیع مسلمانوں کی حکومت وخلافت کی پیش گوئی سورۂ نور، آیت: 55
﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ میں۔
٭ دین کے غلبے کی پیش گوئی سورۂ توبہ، آیت: 33,32 ، سورۂ فتح، آیت: 28، سورۂ صف، آیت:
9,8 میں۔
٭ فتح مکہ کی پیش گوئی سورۂ فتح، آیت: 3-1 اور سورۂ صف، آیت 13 میں۔
٭ صلح حدیبیہ اور غنائم کے حصول کی پیش گوئی، سورۂ فتح، آیت: 20-18، میں۔
٭ قرآنِ مجید کے جمع واشاعت اور تبیین کی پیش گوئی سورۂ قیامہ میں۔
٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قرب اور اشاعتِ اسلام کی پیش گوئی سورۂ نصر میں کی گئی ہے۔
٭ اسی طرح اور بھی پیش گوئیاں ہیں جو حرف بحرف پوری ہوئیں۔
قرآنی ہدایت کا انقلابی پہلو:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ مجید اور اس کی عملی تفسیر، یعنی اپنی سیرتِ مقدسہ اور کردار و اخلاق [کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ] ’’آپ کا اخلاق قرآن ہی ہے۔‘‘[1] کے ذریعے سے جو ذہنی، فکری، اعتقادی، روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، معاشرتی، اجتماعی اور سیاسی انقلاب برپا فرمایا، پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہ پہلے ملتی ہے ، نہ آپ کے بعد۔ یہ قرآن کا ایک معجزہ ہے۔ اس انقلاب کے زیرِ اثرجو افراد اور جماعتیں وجود میں آئیں ان میں سے ہر جلیل القدر صحابی خصوصًا عشرۂ مبشرہ، حضرت ابوہریرہ، عبادلۂ اربعہ (عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہم) وغیرہ میں سے ہر ایک انفرادی طور پر بجائے خود علومِ دین کا مستقل سرچشمہ ہے۔ انسانی تاریخ میں کسی وقت کسی جگہ اور کسی گروہ میں اتنے قلیل عرصے میں اس قدر وسیع انقلاب کا
[1] مسند أحمد216/6: عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا