کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 31
سے لکھ سکتے تھے۔ (اگر ایسا ہوتا) تو یہ باطل پرست ضرور شبہ کرتے ۔‘‘[1]
اس لیے یہ دعوٰی اور خیال کہ قرآنِ مجید کے واقعات تورات وانجیل سے ماخوذ ہیں، بالکل بے بنیاد اور بے اصل ہے۔ یہ دعوٰی کرنے والے کتبِ قدیمہ اور قرآنِ مجید دونوں سے ناآشنا ہیں۔ قرآنِ مجید اور تورات وانجیل دنیا میں موجود ہیں، ان کا آپس میں تقابل آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں اصل حقیقت فوراً اُجاگر ہو سکتی ہے۔
موریس بوکائے نے بائبل اور قرآن کے بہت سے موضوعات کا تقابل کرنے کے بعد آخر میں لکھا ہے: ’’قرآن اور بائبل میں بڑے اختلافات ہیں۔ یہ اختلافات اس دعوے کو غلط ثابت کر دیتے ہیں جس میں بغیر کسی شہادت یا ثبوت کے یہ کہہ دیاجاتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کا متن پیش کرنے کے لیے بائبل کی نقل کر ڈالی۔‘‘ [2]
قرآنِ مجید کا چوتھا اعجازی پہلو:
کتابِ الٰہی کی پیش گوئیاں قرآنی اعجاز کا چوتھا پہلو ہیں ۔معجزہ اس چیز کو کہتے ہیں جو خرقِ عادت طریقے پر محض قدرتِ ربّانی سے کسی رسول کی تصدیق کے لیے ظاہر ہواور انسانی عقل اس کی ظاہری توجیہ وتعلیل سے قاصر ہو۔ جن حالات میں یہ پیش گوئیاں کی گئی ہیں اور جس طرح ان کا ظہور ہوا ہے وہ ایک معجزہ ہے، ان میں اعجاز کے دو پہلو ہیں:
(1) بظاہر ناموافق حالات میں ان بعید از عقل اور اہم واقعات کی خبر واطلاع۔
(2) اس اطلاع کے عین مطابق ان کا ظہور اور وقوع۔
٭ ان سب پیش گوئیوں میں سب سے زیادہ صاف اور محیر العقول پیش گوئی رومیوں کا غلبہ ہے
جسے سورۂ روم کے آغاز میں بیان کیا گیا ہے۔
[1] العنکبوت 48:29
[2] بائبل، قرآن اور سائنس 402: