کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 28
ظاہرہوئی اور جس میں انتہائی مختلف النوع مضامین بیان ہوئے ہیں، میرے لیے یہ ممکن ہو گا کہ میں اس میں سے ایسے بیانات ڈھونڈ نکالوں گا جو جدید سائنسی معلومات سے کلی طور پر ہم آہنگ ہوں گے۔‘‘[1]اور کتاب کے آخر میں لکھا ہے: ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی معلومات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات ناقابلِ تصور معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کے بہت سے وہ بیانات جو سائنس سے متعلق ہیں، کسی بشر کا کلام ہو سکتے ہیں، لہٰذا یہ بات مکمل طور پر صحیح ہے کہ قرآن کو وحیِٔ آسمانی کا اظہار سمجھا جائے۔‘‘[2]
یہ حقیقت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ قرآنِ مجید میں ان حقائق واشیاء کا تذکرہ ہوا ہے جن کا تعلق تاریخ، جغرافیہ، طبیعیات، فلکیات، اجرامِ سماوی، علم الحیات، انسان کی تخلیق، اس کے جسم کی تکوین وترکیب اور دوسرے ایسے علوم سے ہے جن کے بارے میں اس دورِ جدید میں حقائق ومعارف کا نیا عالم منکشف ہوا ہے اور پرانے انسانی علوم کے زمین وآسمان بدل گئے ہیں، وہ قرآن کا اصل موضوع ومقصدنہیں ہیں۔ قرآن کا اصل مقصد انسان کو اللہ رب العزت کی بندگی کی دعوت دینا ہے، اس لیے قرآنِ مجید میں جدید علمی حقائق تلاش کرنا اور ان کو جدید تحقیقات اور نت نئے انکشافات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرنا ایک بالکل مختلف، نازک اور پر خطر کام ہے کیونکہ علم وتحقیق کے جو نتائج اس وقت ثابت شدہ حقائق نظر آتے ہیں، وہ آئندہ ادوار میں بدل سکتے ہیں یا ان کے ثبوت وقطعیت مشکوک ومجروح بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے قرآنی حقائق ومعارف کو کسی قدیم یا جدید نظریے سے تطبیق دینے کی ضرورت نہیں ۔ علم وتحقیق کی تاریخ میں اس کا تجربہ کئی بار ہو چکا ہے کہ ایک دور کے مسلّمات وحقائق دوسرے دور میں یکسر بدل گئے۔ کبھی زمین کو مرکز ِکائنات ٹھہرایا گیا اور کبھی آفتاب کو۔ زمین کبھی مسطح ثابت ہوئی اور کبھی گول۔ سیاروں پر آبادی کبھی ناممکن قرار دی گئی اور کبھی ممکن۔ کبھی زمین متحرک ٹھہری اور کبھی ساکن، البتہ
[1] بائبل، قرآن اور سائنس192:
[2] بائبل، قرآن اور سائنس402: