کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 26
اس لیے جب آپ سے معجزات کا مطالبہ کیا گیا تو یہ ارشادِ باری تعالیٰ نازل ہوا: ﴿ أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ ’’کیا (یہ بطور نشانی) ان کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر (کامل) کتاب اتاری ہے جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے رحمت اور یاد دہانی (نصیحت) ہے جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘[1] اہلِ کتاب اور مشرکین کو قرآن کا مثل لانے کا چیلنج دیا گیا، پھر یہ چیلنج دس سورتوں تک محدود کر دیا، پھر صرف ایک ہی سورت کا مثیل لانے کا چیلنج دیا۔ حق یہ ہے کہ کوئی کلام یا کتاب قرآن یا اس کی کسی سورت کی مثل اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کے اعجاز کے تمام پہلوؤں اور اس کی تمام خصوصیات کی حامل نہ ہو۔ قرآن صرف اپنے الفاظ وتراکیب، فصاحت وبلاغت ہی کے اعتبار سے معجزہ نہیں ہے بلکہ یہ جس طرح اپنے الفاظ وتراکیب اور فصاحت وبلاغت میں لاثانی، بے مثل اور معجزہ ہے، اسی طرح اپنے معانی ومضامین، اپنے بلند پایہ حقائق ومعارف، اپنی غیبی معلومات، حقائقِ ابدی اور اپنی پیش کی ہوئی دینی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور مدنی واجتماعی تعلیمات میں بھی سراسر معجزہ ہے حتیٰ کہ اپنے اثرات ونتائج، انقلاب انگیزی اور پیش گوئیوں میں بھی لاجواب ہے۔ اگر صرف الفاظ اور تراکیب میں، جو اس کے اعجاز کا محض ایک پہلو ہے، اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکا تو اس کے اعجاز کے تمام پہلوؤں کا مقابلہ بھلاکس کے بس کی بات ہے! اعجازِ قرآن کے چند گوشے: ( 1 ) قرآن مجید کا سب سے بڑا اور بنیادی اعجاز اس کا ایک مکمل دستورِ حیات اور نظامِ زندگی
[1] العنکبوت51:29