کتاب: قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزے - صفحہ 233
یہی وجہ ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جو قانونی نظام اساسی طور پر ظالم ہیں یا کچھ مدت بیت جانے کے بعد لوگوں پر یہ بھید کھلا کہ یہ قوانین سفاکانہ ہیں تو یقینا ایسے قانونی نظام عدم استحکام سے دوچار ہوئے۔ ان وضعی قوانین کا طرئہ امتیاز مسلسل تغیر و تبدل ہے جبکہ قرآنی شریعت کے احکام اپنی اساس کے اعتبار سے محکم اور ابدی ہیں۔ فرانس جیسی حکومت نے بھی اپنے مشہور انقلاب[1] سے پہلے ’’قانون ا لاقطاع ‘‘یعنی ’’جاگیردارانہ نظامِ حکومت‘‘ نافذ کیا ہوا تھا۔ ماہر قانون دانوں کی شہادت کے مطابق یہ قانون ظالمانہ تھا، اسی طرح سو سال پہلے برطانیہ میں سزاؤں کا قانون بڑا ظالمانہ تھا جیسا کہ مغربی قانون دانوں نے اس بات کی توثیق کی ہے کہ وہاں سینکڑوں جرائم کی سزا قتل مقرر کی گئی تھی۔[2] یہ ایک معلوم و معروف حقیقت ہے کہ بہت سے مغربی ممالک نے ماضی قریب میں اکثر جرائم کے لیے مقررہ سزائے موت کالعدم کر دی اور دلیل یہ دی کہ یہ سزا نہایت سخت اور ظالمانہ ہے…اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ پہلے آپس میں ظلم اور زیادتی کے فیصلے کیا کرتے تھے اور اپنے ان جرائم کی سزا سے بچنے کے لیے انھوں نے سزائے موت کا قانون ہی ختم کر دیا۔
[1] انقلابِ فرانس 14جولائی 1789ء کو برپا ہوا تھا جب شاہی جاگیردارانہ نظام سے تنگ آئے ہوئے عوام نے بیستی ( Bastille )کے قید خانے پر ہلہ بول دیا تھا اور گورنر قید خانہ کو قتل کرکے سیاسی قیدی رہا کرا لیے۔ اس سے مطلق العنان بادشاہت کے خاتمے کا آغاز ہوا ۔ 14جولائی 1790ء کو بادشاہ لوئی شانز دہم نے دستورساز اسمبلی کا دستور منظور کر لیا۔ 20جون 1791ء کو بادشاہ کو اہل و عیال کے ساتھ فرار ہوتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ 11ستمبر 1792ء کو قومی کنونشن نے بادشاہی ختم کر دی اور فرانس میں جمہوریت کا اعلان کر دیا۔ 16جنوری 1793ء کو بادشاہ کو موت کی سزا دے دی گئی ۔ (انسا ئیکلو پیڈیا تاریخ عالم:433/2-439) [2] البدایۃ و النہایۃ: 70-74/13