کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 99
کیا، بعض نے ایک حرف میں پڑھا، بعض نے دو اور بعض نے دو سے بھی زیادہ حروف میں پڑھا۔ پھر وہ اسی حال میں مختلف شہروں میں بکھر گئے، ان سے تابعین نے پڑھا اور تابعین سے تبع تابعین نے پڑھا۔ یہ معاملہ ایسے ہی چلتا رہا، یہاں تک کہ ان مشہور ائمہ کرام کا زمانہ آگیا، جو قراءات کے ماہر تھے، جنہوں نے اپنی زندگیاں اس کے لیے وقف کر دیں، انہوں نے ان کو ضبط کیا اور ان کے فروغ کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔‘‘ [1] اسی اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام ابن مجاہد رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’السبعۃ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’اور صحابہ و تابعین سے مختلف آثار مروی ہیں، جو مسلمانوں کے لیے باعث وسعت و رحمت ہیں۔‘‘ [2] ۵۔ لغات یا لہجات کا اختلاف: میرے علم کے مطابق یہ قول سب سے پہلے امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تأویل مشکل القرآن‘‘ میں پیش کیا ہے۔[3] ان کے بعد امام ابو شامہ رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’عربی قرآن مجید میں تمام عرب لغات موجود ہیں، کیونکہ یہ عربوں پر نازل ہوا ہے، اور انہیں اپنی مختلف لغات میں پڑھنے کی اجازت دے دی گئی ہے، جس وجہ سے یہ قراءات بھی مختلف ہوگئی ہیں۔‘‘ [4] امام ابو شامہ رحمہ اللہ کے اس قول کی تائید سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی
[1] مناہل العرفان: ۱/۴۰۶. [2] السبعۃ: ۴۵. [3] یہ قول پیچھے ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر میں اختلاف‘‘ کے مبحث میں گزر چکا ہے. [4] إبراز المعانی: ۴۷۸.