کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 98
میں اس موقف کو درست سمجھتا ہوں[1] کیونکہ اس کی تائید سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ہشام رضی اللہ عنہ کے قصہ سے بھی ہوتی ہے، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے فرمایا تھا ((کَذٰلِکَ أُنْزِلَتْ)) ’’یہ ایسے ہی نازل کیا گیا ہے۔‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اختلاف قراءات کا ایک سبب تعدد نزول بھی ہے۔
۴۔صحابہ کرام سے روایت کرنے میں اختلاف:
یہ جمہور مقرئین کا مذہب ہے۔ کردی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’تاریخ القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’قراءات سبعہ وغیرہ کے اختلاف کا سبب… جیسا کہ ابن ہشام رحمہ اللہ فرماتے ہیں[2] … وہ علاقے ہیں، جن کی طرف مصاحف روانہ کیے گئے تھے۔ وہاں کے لوگوں نے ان مصاحف سے پڑھا، اور وہ مصاحف نقاط و حرکات سے خالی تھے، چنانچہ ہر علاقے کے لوگ صحابہ کرام سے سماع کے ذریعے حاصل کیے ہوئے حروف پر پختہ ہوگئے، بشرطیکہ وہ رسم کے موافق ہوں۔ انہوں نے رسم کے مخالف حروف کو ترک کر دیا، کیونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی کا حکم دیا تھا، اور تمام صحابہ کی اس پر موافقت تھی۔ پس یہاں سے مختلف شہروں کے قراء کرام کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا، اگرچہ وہ سب حروف سبعہ میں سے کسی نہ کسی حرف کو تھامنے والے تھے۔‘‘ [3]
قراء ت، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے سن کر حاصل کرتے تھے، اور جو انہوں نے حاصل کیا تھا، وہ بھی مختلف تھا۔ امام زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف حروف میں قرآن مجید حاصل
[1] مقدمتان فی علوم القرآن: ۱۷۰، ۱۷۱.
[2] مطبوعہ نسخہ میں ایسے ہی ہے، جبکہ درست ’’ابن ابی ہاشم‘‘ ہے.
[3] تاریخ القرآن: ۹۲، نقلا عن فتح الباری.