کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 97
﴿تِسْوَدُّ وُجُوْہٌ﴾ (آل عمران: ۱۰۶) اور ﴿اَلَمْ اِعْہَدْ اِِلَیْکُمْ﴾ (یٰسٓ: ۶۰) پڑھتا تھا۔ تمیمی ہمزہ پڑھتا تھا اور قریشی ہمزہ نہیں پڑھتاتھا، بعض لوگ ﴿قِیْلَ﴾ (البقرۃ: ۱۱) اور ﴿غِیْضَ﴾ (ہود: ۴۴) میں اشمام کرتے تھے، اور لفظ ﴿لَا تَاْمَنَّا﴾ (یوسف: ۱۱) میں ادغام کامل سے پڑھتے تھے۔ اگر ان میں سے ہر فریق کو اپنی لغت اور جاری عادت چھوڑنے کا حکم دیا جاتا تو یہ ان پر گراں گزرتا اور اس میں بہت زیادہ مشقت کرنا پڑتی، اور طویل مدت کی ریاضت، اور زبان کی درستگی کے بعد ممکن ہو پاتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان پر آسانی کر دی اور انہیں مختلف لغات میں پڑھنے کی اجازت دے دی۔‘‘ [1] ۳۔ نزول کا اختلاف: یہ قول صاحب کتاب المبانی نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اختیار کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’اختلاف قراءات کا ایک سبب نزول قرآن کا اختلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہِ رمضان میں سیدنا جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دَور فرمایا کرتے تھے۔ اور صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر دَور کے حروف أخذ کر لیتے تھے۔ بعض صحابہ نے ایک حرف پر پڑھا، تو بعض نے اس کے علاوہ کسی دوسرے حرف پر پڑھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے ان تمام حروف کو آخری دور یا آخری دو یا تین ادوار میں جمع فرما دیا۔ جس کے نتیجے میں حروف کا باہمی اختلاف بہت کم رہ گیا، جنہیں صحابہ کرام نے نسخ مصاحف کے وقت مختلف مصاحف میں تقسیم کر دیا، تاکہ وہ ضائع نہ ہو جائے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اہل شام، اہل عراق اور اہل حجاز کے مصاحف متعدد حروف میں مختلف ہیں۔ جن کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
[1] تأویل مشکل القرآن: ۳۰.