کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 90
یہ مسئلہ اہل علم کے ہاں مختلف فیہ ہے۔[1] جمہور اہل علم اس کے عدم جواز کے قائل ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک تمام اقسام قراء ت میں صحت روایت شرط ہے۔ اور ہماری رائے بھی یہی ہے، کیونکہ قیاس ایک ظنی دلیل ہے، جس کی طرف اصل کے اعتبار سے رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔ الا یہ کہ قرآن، حدیث یا عقل سے کوئی خاص دلیل مل جائے۔ اور قرآن و حدیث میں کوئی ایسی دلیل موجود نہیں ہے جو قراءات میں قیاس کے جواز پر دلالت کرتی ہو۔ اسی طرح عقل بھی قیاس سے منع کرتی ہے، کیونکہ قرآن یقین کے بغیر ثابت نہیں ہوتا اور یہاں قیاس، یقین تک لے جانے سے قاصر ہے۔ ٭ ڈاکٹر طہ حسین کا موقف ہے کہ قراءات قرآنیہ کا مصدر لہجات ہیں، وہ کہتا ہے: ’’متعدد دیندار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قراءات سبعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، اور انہیں سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے آپ کے دل پر نازل فرمایا ہے، لہٰذا ان کا منکر بلا شک و شبہ کافر ہے، اور ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے، جس سے وہ استدلال کرتے، کہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلٰی سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ)) ’’قرآن مجید سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘ جبکہ حق یہ ہے کہ ان قراءات قرآنیہ کا وحی کے ساتھ تھوڑا بہت کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا منکر نہ تو کافر ہے، نہ فاسق ہے اور نہ ہی اس کے دین پر طعن کیا جائے گا۔ ان قراءات کا مصدر لہجات ہیں، کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ یہ قراءات اختلافِ لہجات کا مظہر ہیں۔‘‘ [2] یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ ڈاکٹر طہ حسین کو یہ کیسے علم ہوگیا ہے، کہ اہل علم نے
[1] النشر: ۱/۱۷. [2] فی الأدب الجاہلی: ۹۵، ۹۶.