کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 88
وَتَوَاتُرِھَا، وَلَا طَرِیْقَ اِلٰی ذٰلِکَ اِلاَّ بِہٰذَا الْفَنِّ)) (یَعْنِیْ عِلْمَ الْأَسَانِیْدِ۔)) [1] ’’قراء ت نقل محض اور سنت متبعہ ہے، پس اس کا اثبات اور تواتر ضروری ہے، اور اس کا کوئی راستہ نہیں مگر اس فن (علم اسانید) سے۔‘‘ امام ابن مجاہد رحمہ اللہ نے یہاں دو احادیث نقل کی ہیں۔ [2] سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: ((اِتَّبِعُوْا وَلَا تَبْتَدِعُوْا، فَقَدْ کُفِیْتُمْ)) ’’اتباع کرو اور ایجاد نہ کرو، تم تمہیں کفایت کر جائے گا۔‘‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں: ((اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تَقْرَؤُا الْقُرْآنَ کَمَا عُلِّمْتُمْ)) ’’بے شک رسول اللہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ قرآن مجید اس طرح پڑھو، جس طرح تمہیں سکھایا گیا ہے۔‘‘ ان احادیث مبارکہ میں قیاس مطلق کے ساتھ قراء ت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور وہ وہ ہے جس کی قراء ت میں کوئی اصل نہ ہو، کہ اس کی طرف رجوع کیا جائے، اور اداء میں کوئی رکن نہ ہو، کہ اس پر اعتماد کیا جاسکے۔[3] یہی وجہ ہے کہ امام نافع رحمہ اللہ اور امام ابوعمرو رحمہ اللہ وغیرہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرے لیے نقل کے سوا قراء ت کرنا جائز ہوتا، تو میں فلاں فلاں حروف پڑھتا۔[4] متقدمین میں سے ابن مقسم رحمہ اللہ سے شاذ طور پر منقول ہے کہ وہ رسم کے موافق قراء ت کے جواز کے قائل تھے، اگرچہ وہ مروی نہ بھی ہو۔[5] اور معاصرین میں سے ابو القاسم خوئی اور ابراہیم ابیاری کا موقف ہے کہ قراءات قرآنیہ، قراء کرام کے اجتہادات ہیں جیسا کہ پہلے گزر
[1] غیث النفع: ۲۱. [2] السبعۃ: ۴۶، ۴۷. [3] النشر: ۱/۱۷. [4] ایضًا. [5] غیث النفع: ۲۱۸.