کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 87
’’سنت یہ ہے کہ قراء ت کو اس وقت أخذ کیا جائے، جب وہ نقلاً، قراء ۃً اور لفظاً متصل ہو، اور اس کے راویوں میں سے کسی راوی پر طعن موجود نہ ہو۔‘‘ امام ابو عمرو عثمان بن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((یُشْتَرَطُ أَنْ یَکُوْنَ الْمَقْرُوْئُ بِہٖ قَدْ تَوَاتَرَ نَقْلُہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ قُرْآنًا، أَوِاسْتَفَاضَ نَقْلُہُ کَذٰلِکَ)) [1] ’’شرط یہ ہے کہ پڑھی گئی قراء ت کا قرآن ہونا، تواتر یا استفاضہ(شہرت) کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہو۔‘‘ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَلْیَحْذَرِ الْقَارِیُٔ الْاِقْرَآئَ بِمَا یَحْسُنُ فِیْ رَأْیِہٖ دُوْنَ النَّقْلِ أَوْ وَجْہِ اِعْرَابٍ، أَوْلُغَۃٍ دُوْنَ رِوَایَۃٍ)) [2] ’’قاری کو چاہیے کہ وہ نقل کے بغیر اپنی رائے میں کسی پسندیدہ قراء ت کو، یا روایت کے بغیر کسی وجہ اعراب اور لغت کو پڑھانے سے بچ جائے۔‘‘ امام ابو عمرو دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’قرائے کرام حروف قرآن میں، لغت میں مشہور، عربیت میں قرین قیاس کی بجائے روایت سے ثابت اور نقل میں اصح پر اعتماد کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب کوئی روایت ثابت ہو جاتی ہے تو عربی قیاس یا مشہور لغت اسے رد نہیں کر سکتی، کیونکہ قراء ت، سنت متبعہ ہے، جسے قبول کرنا اور اس کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔‘‘ [3] امام نوری صفاقسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((اَلْقِرَآئَ ۃُ سُنَّۃٌ مُتَّبَعَۃٌ، وَنَقْلٌ مَحْضٌ، فَلَا بُدَّ مِنْ اِثْبَاتِھَا
[1] النشر: ۱/۳۸. [2] منجد المقرئین: ۳. [3] مناہل العرفان: ۱/۴۱۵ نقلا عن جامع البیان.