کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 81
کے اس تعاقب کو دیکھیں جو امام زمخشری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں کیا ہے تو آپ ملاحظہ کریں گے کہ امام زمخشری رحمہ اللہ نے ان کی متعدد وجوہ کا رد کیا ہے اور انہیں قبول نہیں کیا۔ اسی طرح امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ قرائے کرام کا تعاقب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس طبقہ کے لوگ اپنی قراءات میں غلطی اور وہم سے بہت کم سلامت رہے ہیں۔ [1] میں نہیں سمجھتا کہ ابیاری نے تعدد طرق کو تعدد قراءات کیسے بنا دیا ہے، طریق تو راوی سے راوی کی طرف قراء ت کی نسبت کو کہتے ہیں۔ ائمہ قراءات نے نسبت قراءات کی چار اقسام بیان فرمائی ہیں، جو درج ذیل ہیں: ۱۔ قراء ت: جو ائمہ کرام میں سے کسی کی طرف منسوب ہو جیسے ’’قراء ت امام نافع رحمہ اللہ ‘‘ ۲۔ روایت: جو امام سے روایت کرنے والے راوی کی طرف منسوب ہو جیسے ’’روایت قالون عن نافع‘‘ ۳۔ طریق: جو راوی سے روایت کرنے والے راوی کی طرف منسوب ہو جیسے ’’طریق ابو نشیط عن قالون‘‘ ۴۔ وجہ: جب قاری کے اختیار کی طرف نسبت ہو۔[2]پھر ان چاروں انواع میں سے ہر نوع میں تعدد ضروری ہے، تاکہ سند تواتر یا کم از کم استفاضہ (شہرت)کے درجہ تک پہنچ جائے۔ قرائے کرام کے طرق کو (دو دو میں) محصور کرنے والے (امام ابن مجاہد رحمہ اللہ جیسے) علماء کرام ہیں، ورنہ زمان ومکان کے اختلاف کے باوجود ان کے طرق اتنے زیادہ ہیں کہ
[1] تأویل مشکل القرآن: ۴۲۔ الموسوعۃ القرآنیۃ: ۱/۸۰. [2] اتحاف فضلاء البشر: ۱۷،۱۸.