کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 80
اور المقاصد العلیۃ وغیرہ، ان کے تواتر پر اجماع کو ایک جماعت نے ایک جماعت سے نقل کیا ہے۔ مصحف کے رسم اور کتب قراءات میں ایک ایک حرف اور ایک ایک حرکت کو شمار کیا گیا ہے، جو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا تواتر قطعی ہے، جیسا کہ (مجمع البرہان) میں اشارہ کیا گیا ہے۔‘‘ [1]
عصر حاضر کے امامی شیعہ عالم ابو الحسن شعرانی لکھتے ہیں:
’’تمام مسلمانوں کا قرائے کرام کی قراءات کے قطعی ہونے پر اتفاق ہے، جو لغت عرب سے استشہاد و اجتہاد کی بجائے سماعت و ثقہ نقل سے مروی ہیں۔ اس کی واضح ترین دلیل یہ ہے کہ یائے اضافہ میں سکون اور فتحہ دونوں وجوہ پڑھی جا سکتی ہیں، مگر قرآن مجید میں ۵۶۶ جگہ سکون، ۱۸ جگہ فتحہ اور ۲۱۲ جگہ فتح و سکون دونوں پڑھی گئی ہیں، یہ اور ان جیسی دیگر مثالوں کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: آج ہمارے ہاں قراءات سبعہ اور ان کے قرائے کرام کے نام کتب تفسیر میں موجود ہیں، جو کبار اہل علم کی محنتوں کا نتیجہ ہیں۔ جنہوں نے مختلف مذاہب اور مختلف شہروں میں قیام کے باوجود اس میدان میں کتب تصنیف فرمائیں۔ اس باب کی سب سے ثقہ ترین کتاب ’’التیسیر‘‘ ہے، جو ایک اندلسی عالم کی تصنیف ہے، ہزاروں علمائے قراءات نے اس کتاب اور اس کے مؤلف کی صحت وثقاہت کی گواہی دی ہے۔ [2]
ابیاری لکھتے ہیں:
’’ہم قرائے کرام کے اس امر کو صحیح نہیں سمجھتے، کہ ایک ایک کلمہ بیس تیس یا اس سے زائد وجوہ کا متحمل ہو سکتا ہے، حتی کہ فقط ان قراءات عشرہ کے طرق کی تعداد نو سو اسی (۹۸۰) طرق تک جا پہنچتی ہے۔ بے شک یہ قراء کرام کا اجتہاد تھا، اور اس اجتہاد میں وہ افراط و تفریط کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر آپ قرائے کرام
[1] مفتاح الکرامۃ: ۲/۲۹۰.
[2] مجلۃ الفکر الإسلامی، العدد الأول، ص: ۷۱، ۷۲.