کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 78
(جش) نے روایت کیا ہے، وہ (قد) میں (غض) سے روایت کرنے میں ضعیف ہیں اور ان کی روایت مختلط ہے۔‘‘ اور فقہاء امامیہ میں سے جنہوں نے اس قول سے استدلال کیا ہے، انہوں نے اس میں ضعف کے سبب اپنے اصحاب کے عمل پر اعتماد کیا ہے۔ اور یہ سید خوئی کا منہج نہیں ہے، جیسا کہ وہ اپنے اصولی محاضرات میں بیان کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ خوئی کیسے اس قول اور اپنے اسقاط قراءات والے سابقہ قول کے درمیان جمع کریں گے۔ علاوہ ازیں خوئی کی رائے، معروف مذہب امامیہ کے مخالف ہے، کیونکہ وہ قراءات سبعہ کی مانند مشہور قراءات کو قرآن قرار دیتے ہیں۔ محمد بن حسن طوسی الملقب بشیخ الطائفۃ (ت ۴۶۰ھ) فرماتے ہیں: ’’جان لو! ہمارے اصحاب کے معروف مذہب، اور ان کی مشہور روایات واخبار کے مطابق قرآن مجید نبی واحد پر حرفِ واحد میں نازل ہوا ہے، مگر ان کا اس بات پر اجماع ہے، کہ قرائے کرام میں متداول حروف کے ساتھ قراء ت کرنا جائز ہے۔ اور انسان کو اختیار ہے کہ وہ ان میں سے جس قراء ت پر چاہے، تلاوت کرے، انہوں نے تجرید قراء ت کو ناپسند کیا ہے، بلکہ قراء ت بالمجاز کی اجازت دی ہے، جو قراء کے ہاں جائز ہے، اور اس مذہب کے مطابق انہوں نے حرمت کی حد عبور نہیں کی۔‘‘[1] فضل بن حسن طبرسی فرماتے ہیں: ’’جان لیجیے! مذہب امامیہ کا ظاہر یہ ہے کہ انہوں نے قرائے کرام کے مابین متداول قراءات کی تلاوت کے جواز پر اجماع کیا ہے، مگر انہوں نے اس قراء ت کو اختیار کیا ہے جو قراء کے ہاں جائز ہے۔ اور کسی ایک قراء ت کی تجرید کو ناپسند کیا ہے۔‘‘ [2]
[1] التبیان: ۱/۷. [2] مجمع البیان: ۱/۲۵.