کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 77
ومجموع الروایات لأحمد الباطرقانی (ت ۶۰ھ)‘‘ [1] نام کی کتب بھی پڑھتے ہیں، اور ’’غیث النفع‘‘ کے مقدمہ میں بھی اس مسئلہ پر خوب روشنی ڈالی گئی ہے۔ پھر اگر یہ علم اجمالی … جس کے نزدیک اس کو رفع کرنے کا کوئی حل نہیں ہے … نماز میں سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرتے وقت جمیع قراءات میں احتیاط کو لازم کر دے، حالانکہ سورۃ الفاتحہ پڑھنا واجب ہے، تو مکلف اپنے ذمہ سے بری نہیں ہوگا، یا تمام قراءات کو چھوڑ دینا لازم کر دے، تو پھر سورۃ الفاتحہ کی جگہ کیا پڑھا جائے گا، حالانکہ وہ ہر مسلمان سے وجوباً مطلوب ہے۔ اور مسلمانوں میں سے کوئی ایک شخص بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ علم اجمالی کے سبب ان قراءات کو چھوڑ دیا جائے، یا ان میں لازمی طور پر مذکورہ احتیاط کی جائے۔ اہل بیت کا یہ قول: ((اِقْرَئُ وْا کَمَا یَقْرَأُ النَّاسُ، اِقْرَئُ وْا کَمَا عُلِّمْتُمْ)) [2] ’’لوگوں کی طرح پڑھو، جیسا تمہیں سکھایا گیا ہے، ویسے پڑھو۔‘‘ جسے خوئی نے بھی ذکر کیا ہے، اس امر پر صریح دلیل ہے کہ وہ اپنے زمانے میں معروف قراءات کو قرآن سمجھتے تھے۔[3] ورنہ وہ نماز میں اس کی قراء ت کا حکم نہ دیتے، اور خوئی خود بھی اس قول سے یہی استنباط کرتے نظر آتے ہیں۔ باوجودیکہ اس قول کی سند میں سالم بن ابو سلمہ ضعیف راوی موجود ہیں، شیخ محمد طہ نجف ’’اتقان المقال‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’سالم بن ابو سلمہ کندی سجستانی کی حدیث عیوب سے پاک نہیں ہے، اگرچہ ہم ان سے خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے، ان کی ایک کتاب ہے جسے ان کے بیٹے
[1] معجم المؤلفین: ۲/۴۵. [2] البیان: ۱۸۲. [3] اور قراءات سبعہ بھی ان میں شامل ہیں، دوسری صدی ہجری کے آخر پر مکہ میں لوگ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی قراء ت، مدینہ میں نافع رحمہ اللہ کی قراء ت، کوفہ میں امام حمزہ رحمہ اللہ اور امام کسائی رحمہ اللہ کی قراء ت، بصرہ میں ابو عمرو رحمہ اللہ اور یعقوب رحمہ اللہ کی قراء ت اور شام میں ابن عامر رحمہ اللہ کی قراء ت پر متفق تھے، تیسری ہجری کے آخر میں آکر امام ابن مجاہد رحمہ اللہ نے امام کسائی رحمہ اللہ کا نام داخل کرکے امام یعقوب رحمہ اللہ کا نام حذف کردیا۔ (مفتاح الکرامۃ: ۲/۳۹۲).