کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 76
ابو القاسم ہذلی رحمہ اللہ مؤلف کتاب ’’الکامل‘‘ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: ((وَلَہُ أَغَالِیْطٌ کَثِیْرَۃٌ فِیْ أَسَانِیْدِ الْقِرَآئَ اتِ، وَحَشَدَ فِیْ کِتَابِہٖ أَشْیَآئً مُنْکِرَۃً لَا تَحِلُّ الْقَرَآئَ ۃُ بِہَا وَلَا یَصِحُّ لَہَا أَسْنَادٌ)) [1] ’’ان کی اسانید قراءات میں بہت زیادہ غلطیاں ہیں، انہوں نے اپنی کتاب میں بعض منکر أشیاء جمع کر دی ہیں، جن کے ساتھ قراء ت جائز نہیں،ا ور ان کی اسناد صحیح نہیں ہیں۔‘‘ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اپنی طبقات میں محمد بن حسن بن زیاد لؤلؤی کوفی رحمہ اللہ ، جنہوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب قراء ت اور اپنے والد حسن بن زیاد جو امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں ان کی طرف منسوب قراء ت کو روایت کیا ہے، کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: ((وَہُوَ ضَعِیْفٌ فِی الرِّوَایَۃِ جِدًّا، کَذَّبَہُ غَیْرُ وَاحِدٍ)) [2] ’’وہ روایت میں انتہائی ضعیف ہیں، ایک سے زائد اہل علم نے اس کی تکذیب کی ہے۔‘‘ امام ابن مجاہد رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’السبعۃ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’بعض قراءات ایسی ہیں جن کے راویوں کو ان میں وہم ہوگیا، انہوں نے طویل عرصہ گزر جانے کے بعد ان قراءات کی روایت کو ضائع اور سماع کو بھلا دیا، جب انہوں نے اپنی ان قراءات کو ماہر قراء پر پیش کیا، تو انہوں نے وہم کو پہچان لیا اور اسے اصل راوی کی طرف لوٹا دیا۔ اور بسا اوقات وہم کی وجہ سے ان کی روایت ساقط ہوگئی، کیونکہ وہ اس پر اصرار کرنے والے، اور اسے ترک نہ کرنے والے تھے۔ متعدد راوی ایسے ہیں جن کی حدیث کو ترک کر دیا گیا، اور ان کی روایت میں تہمت لگائی گئی، جس کی علت یہی وہم تھا۔‘‘ [3] اسی طرح قراء کرام کی کتب میں ہم ’’ المدخل إلی معرفۃ أسانید القراءات
[1] الکامل: ۱/۳۴۹. [2] الطبقات للجزری: ۱/۲۱۳. [3] السبعۃ: ۴۹.