کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 73
یہی معاملہ دیگر تمام قراء کے راویوں کے بارے میں پیش آیا ہے۔‘‘ [1]
’’الحدائق الناضرۃ‘‘ میں مرقوم ہے:
’’میرے دادا نے بعض محقق قرائے کرام سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک مستقل کتاب میں ان لوگوں کے ناموں کو جمع کیا ہے، جنہوں نے ہر طبقہ میں ان قراءات کو نقل کیا ہے، اور ان کی تعداد تواتر میں معتبر تعداد سے زیادہ ہے۔‘‘[2]
بعض قرائے کرام کے متعلق، خصوصاً قراء ت کے میدان میں جو جرح ثابت ہے، وہ درحقیقت علم ’’أسانید القراء ت‘‘ کے اصولوں کی عملی تطبیق تھی، تاکہ قراءات صحیحہ، غیر صحیحہ سے ممتاز ہو جائیں، بالکل ایسے ہی جیسے روایت حدیث میں کیا جاتا ہے۔ اور یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ رجال حدیث کے بارے میں موجود علم جرح و تعدیل، حدیث شریف کا انکار کرنے اور اسے راویوں کا اجتہاد قرار دینے کا سبب ہے، بلکہ اس علم سے حدیث لینے میں اطمینان و ثقاہت پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح قراءات ایک دوسری سنت ہیں، جن کے رجال کے لیے الگ علم جرح و تعدیل ہے کہ جس کا مزید بیان آگے آئے گا۔
۴۔ علم اجمالی سے استدلال:
یعنی اجمالی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض قراءات ایسی بھی ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر نہیں ہوئی ہیں۔ اور وہ دیگر قراءات قرآنیہ میں تعارض، ان کے سقوط اور لفظی و عملی اصولوں کی طرف رجوع کرنے کا سبب ہیں۔[3] اس پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ اشکال تو احادیث مبارکہ پر بھی وارد ہوتا ہے، کیونکہ ہم اجمالی طور پر جانتے ہیں کہ بعض احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر نہیں ہوئی ہیں۔
اب جس طریقے پر چل کر حدیث کے بارے میں اس علم اجمالی کے وہم کو ختم کیا جاسکتا ہے، قراء ت میں بھی اسی پر چلا جائے گا۔ اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اس جیسے تعارض کے سبب احادیث کو چھوڑ کر اصول کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
[1] البرہان: ۱/۳۲۵.
[2] الحدائق الناضرۃ: ۸/۹۵.
[3] البیان: ۱۸۲.