کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 72
۳۔ تمام رواۃ قراءات سبعہ کی عدم توثیق سے استدلال: بعض اہل علم کی جانب سے بعض راویوں کی جس عدم ثقاہت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ قراءات میں نہیں، بلکہ حدیث میں ہے۔ جیسا کہ امام عاصم رحمہ اللہ کے شاگرد امام حفص الدوری رحمہ اللہ کے بارے میں منقول ہے۔ [1] اسی طرح امام نافع رحمہ اللہ [2] کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ’’لین الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔ اس کا تفصیلی بیان آگے اپنے مقام پر آرہا ہے۔ اس جرح کا بنیادی سبب ان مشار الیہ قراء کرام کا روایت حدیث میں اہتمام نہ کرنا ہے، کیونکہ وہ اس میدان کے شاہسوار نہ تھے۔ نیز یہ بات یاد رہے کہ قرائے سبعہ کے راویوں میں سے صرف دو دو پر اکتفاء کر لینے کا انتخاب امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کا ہے۔ ورنہ قرائے سبعہ میں سے ہر قاری کے راویوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ ہر طبقہ میں تواتر کی حد کو پہنچ جاتی ہے … جیسا کہ پہلے میں اشارہ کر چکا ہوں… اور ان راویوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں، جن پر کوئی جرح نہیں ہے۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔ امام زرکشی رحمہ اللہ اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ان کتب میں قراء تِ امام نافع رحمہ اللہ ، قالون اور ورش کی روایت سے ثابت ہوتی ہے، حالانکہ امام نافع رحمہ اللہ سے ان دونوں راویوں کے علاوہ بھی متعدد راویوں نے روایت کیا ہے۔ جن میں سے اسماعیل بن ابو جعفر مدنی رحمہ اللہ ، ابو خلف رحمہ اللہ ، ابن حیان رحمہ اللہ ، اصمعی رحمہ اللہ اور سبتی رحمہ اللہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان راویوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو قالون اور ورش سے زیادہ ’’أوثقہ‘‘ اور بڑے عالم تھے، اور
[1] علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ : ’’غایۃ النہایۃ‘‘ میں امام حفص رحمہ اللہ کے ترجمہ میں رقم طراز ہیں کہ: ’’امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ قراء ت میں ثقہ، ثبت اور ضابط تھے، بخلاف حدیث کے، میں کہتا ہوں: انہوں نے حدیث کے بارے کلام کیا ہے۔ ‘‘. [2] یعنی حدیث میں انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ ’’غایۃ النہایۃ‘‘ میں امام نافع رحمہ اللہ کے ترجمہ میں رقم طراز ہیں: ’’یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ثقہ، امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے صدوق، امام نسائی رحمہ اللہ نے ’’لا بأس بہ‘‘ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ’’قلیل الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔‘‘.