کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 70
علاقوں کے لوگوں نے قرآن پڑھا، اور وہ مصاحف نقاط و اعراب سے خالی تھے۔ چنانچہ ہر علاقے کے لوگ اسی پر قائم ہوگئے جو انہوں نے صحابہ کرام سے سماعاً حاصل کیا تھا، بشرطیکہ وہ رسم کے موافق ہو، اور جو رسم کے مخالف تھا، اسے انہوں نے ترک کر دیا۔ یہاں سے ان شہروں کے قراء کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔‘‘ نص کلام ہی سے ثابت ہوتا ہے کہ قراءات، روایت تھیں، اجتہاد نہیں۔ اس کی دلیل یہ عبارت ((تَلَقَّوْہُ سِمَاعًا عَنِ الصَّحَابَۃِ)) ’’جو انہوں نے سماعاً صحابہ سے حاصل کیا تھا۔‘‘ ہے۔ یعنی انہوں نے صحابہ کرام سے حاصل کیا تھا اور صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ باقی رہا ان کا یہ اجتہاد کہ انہوں نے مصاحف عثمانیہ کے رسم کی موافقت کی شرط لگائی ہے، اور اس کے مخالف کو ترک کیا ہے، اس کے متعدد اسباب تھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ درحقیقت یہ قراءات میں اجتہاد نہیں ہے، بلکہ قراءات کی تصنیف میں اجتہاد ہے تاکہ قرآن مجید کی حفاظت کی جاسکے۔ قرآن مجید کو لے لیا جائے اور غیر قرآن کو چھوڑ دیا جائے۔ اور حفاظ کرام اس قرآن مجید کی تلاوت کرسکیں جو ’’عرضه اخیرہ‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا گیا تھا۔ اس مسئلہ کی وضاحت اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فقط سورۃ یوسف کی آیت نمبر۳۵ میں ﴿عتی حین﴾ پڑھتے تھے، حالانکہ لفظ ﴿حَتّٰی﴾ اس کے علاوہ بھی متعدد مقامات پر وارد ہے۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی سماع کا التزام کیا کرتے تھے۔[1] اگر ان کی یہ قراء ت اجتہادی ہوتی تو وہ اور تمام قراء کرام پورے قرآن مجید میں ہر جگہ حاء کی بجائے عین سے ﴿عتی﴾ پڑھتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اسی ایک کلمہ میں سنا تھا، لہٰذا وہ صرف اس کو عین کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔
[1] أثر القراءات فی الدراسات النحویۃ: ۳۴،۳۵.