کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 69
((وَاعْلَمْ أَنَّ الْقِرَآئَ اتِ الصَّحِیْحَۃَ الْمُعْتَبَرَۃَ الْمُجْمَعَ عَلَیْہَا قَدِ انْتَھَتْ اِلٰی السَّبْعَۃِ الْقُرَّآئِ۔ الْمُقَدِّمِ ذِکْرُہُمْ۔ وَاشْتَھَرَ نَقْلُھَا عَنْہُمْ لِتَصَدِّیْہِمْ لِذٰلِکَ وَاجْمَاعِ النَّاسِ عَلَیْہِمْ، فَاشْتَھَرُوْا بِہَا کَمَا اشْتَھَرَ فِیْ کُلِّ عِلْمٍ مِنَ الْحَدِیْثِ وَالْفِقْہِ وَالْعَرَبِیَّۃِ أَئِمَّۃٌ اقْتُدِیَ بِہِمْ وَعُوِّلَ فِیْھَا عَلَیْہِمْ)) [1]
’’جان لیجیے! مجمع علیہ قراءات صحیحہ، معتبرہ قراء سبعہ… جن کا پہلے ذکر گزر چکا ہے… پر ختم ہیں۔ ان کے خصوصی اہتمام اور ان پر لوگوں کے اجماع کی وجہ سے ان قراءات کی نقل ان قراء سے مشہور ہو چکی ہے۔ یہ قراءات کے میدان میں ایسے ہی مشہور ہیں، جیسے حدیث، فقہ اور عربیت میں سے ہر علم کے میدان میں کچھ ائمہ کرام مشہور ہیں، جن کی اس میدان میں پیروی کی جاتی ہے، اور ان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔‘‘
پھر خوئی مختلف دلائل سے استدلال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قراءات قرآنیہ، قرائے کرام کے اجتہادات ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ ابن ابی ہاشم رحمہ اللہ کے قول سے استدلال:
ابن ابی ہاشم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((اِنَّ السَّبَبَ فِیْ اخْتِلَافِ الْقِرَآئَ اتِ السَّبْعِ وَغَیْرھَا، أَنَّ الْجِھَاتَ الَّتِیْ وُجِّھَتْ اِلَیْھَا الْمَصَاحِفُ، کَانَ بِہَا مِنَ الصَّحَابَۃِ مَنْ حَمَلَ عَنْہُ أَہْلُ تِلْکَ الْجِھَۃِ، وَکَانَتِ الْمَصَاحِفُ خَالِیَۃً مِنَ النُّقَطِ وَالشَّکْلِ، قَالَ: فَثَبَتَ کُلُّ نَاحِیَۃٍ عَلٰی مَا کَانُوْا تَلَقَّوْہُ سِمَاعًا عَنِ الصَّحَابَۃِ، بِشَرْطِ مُوَافَقَۃِ الْخَطِّ، وَتَرَکُوْا مَا یُخَالِفُ الْخَطَّ، فَمِنْ ثَمَّ نَشَأَ الْاِخْتِلَافُ بَیْنَ قُرَّائِ الْأَمْصَارِ)) [2]
’’قراءات سبعہ وغیرہ میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جن علاقوں کی طرف مصاحف روانہ کیے گئے تھے، وہاں پر متعدد صحابہ کرام موجود تھے، جن سے ان
[1] المرشد الوجیز: ۱۷۳.
[2] البیان: ۱۸۱.