کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 68
کر رہ جاتی ہے، کیونکہ اس کا اکثر حصہ روایات آحاد پر مشتمل ہے، کیونکہ کوئی بھی راوی معصوم نہیں ہے اور اس میں غلطی و اشتباہ کا احتمال ہو سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اس کی روایت کے ساتھ کوئی ایسا قرینہ نہ پایا جاتا ہو، جو علم کا فائدہ دے، تو ہم اسے قرآن شمار کرنے کی حمایت نہیں کریں گے، کیونکہ کسی بھی قراء ت کے قرآن ثابت ہونے کے لیے علم مفید ہونا شرط ہے۔ اور میں نے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ قراءات سبعہ یقین کا فائدہ دیتی ہیں، جو ان کو قرآن ثابت کرنے کا موجب ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ اسی طرح اگر ہم قاری کو مجتہد تصور کرلیں… جیسا کہ خوئی نے ثابت کیا ہے… تو اس کے اجتہاد میں غلطی اور اشتباہ کا احتمال، ہمیں اس کی اجتہادی رائے کو اختیار کرنے سے منع نہیں کرتا، الا یہ کہ وہ غلطی اور اشتباہ یقینی ہو ورنہ تقلید مطلقاً باطل ہو جائے گی کیونکہ کوئی بھی مجتہد معصوم نہیں ہے اور اس کی آراء میں غلطی و اشتباہ کا احتمال باقی رہتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ قراء ت قرآنیہ میں کیا جانے والا ایسا اجتہاد جو ان کی قرآنیت کے علم کا فائدہ نہ دے، ہم انہیں قرآن شمار نہیں کریں گے۔ اس کے باوجود آگے ہم یہ ثابت کریں گے کہ قراءات قرآنیہ قرائے کرام کا اجتہاد نہیں ہیں۔ قرائے کرام کی طرف رجوع کرنا ایسے ہی ہے، جیسے ہر میدان میں اس کے ماہر اور تجربہ کار لوگوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ فقہ اور حدیث کے میدان میں فقہاء اور محدثین کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ دیگر میدانوں میں ماہر اور تجربہ کار لوگوں کی طرف رجوع کرنے کو لازم کرنے والے دلائل ہی قراءات قرآنیہ کے میدان میں قراء کرام کی طرف رجوع کرنے کو لازم کرنے والے ہیں۔ امام ابو شامہ رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’المرشد الوجیز‘‘ میں اس طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: