کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 60
وَالْوَصْلِ، وَغَیْرِ ذٰلِکَ مِنْ ہَیْئَۃِ النُّطْقِ وَالْاِبْدَالِ وَغَیْرِہٖ، مِنْ حَیْثُ السِّمَاعِ)) [1] ’’قراءات سے مراد وہ علم ہے، جس سے سماعاً حذف و اثبات، حرکت و سکون، فصل و وصل وغیرہ جیسی نطقی کیفیت اور ابدال وغیرہ میں کتاب اللہ کے ناقلین کا اتفاق و اختلاف معلوم ہوتا ہے۔‘‘ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اور امام دمیاطی رحمہ اللہ نے قراء ت میں نقل و سماع کی بھی شرط لگائی ہے، کیونکہ قراء ت سنت متبعہ ہے، جیسا کہ سیدنا زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ [2] علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وَلْیَحْذَرِ الْقَارِیُٔ الْاِقْرَآئَ بِمَا یَحْسُنُ فِیْ رَأْیِہٖ دُوْنَ النَّقْلِ، أَوْوَجْہِ اعْرَابٍ أَوْلُغَۃٍ، دُوْنَ رِوَایَۃٍ)) [3] ’’قاری کو چاہیے کہ وہ نقل کے بغیر اپنی رائے میں کسی اچھی قراء ت، یا روایت کے بغیر کسی اعرابی یا لغوی وجہ کو پڑھانے سے بچے۔‘‘ امام زکریا انصاری رحمہ اللہ (ت ۹۲۵ھ) کی ذکر کردہ تعریف میں ہم ایک اور شرط بھی پاتے ہیں کہ منقول یا مسموع قراء ت کی تلاوت یا اداء کے اعتبار سے قرآن مجید پر تطبیق کی جائے۔ چنانچہ وہ قراء ت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ((اَلْقِرَآئَ ۃُ ہِیَ عِنْدَالْقُرَّآئِ: أَنْ یُقْرَأَ الْقُرْآنُ سَوَآئً کَانَتِ الْقِرَآئَ ۃُ تِلَاوَۃً بِأَنْ یُقْرَأَ مُتَتَابِعًا، أَوْ أَدَآئً بِأَنْ یَأْخُذَ مِنَ الْمَشَایِخِ وَیَقْرَأَ)) ’’قرائے کرام کے نزدیک قراء ت سے مراد، قرآن کی قراء ت ہے، برابر ہے
[1] تحاف فضلاء البشر: ۵. [2] الإتقان: ۱/۷۵. [3] منجد المقرئین: ۳.