کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 59
دوسری فصل: قراءات کی تعریفات علامہ زرکشی رحمہ اللہ قراءات کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ((اَلْقِرَآئَ اتُ: اخْتِلَافُ أَلْفَاظِ الْوَحْیِ۔ الْمَذْکُوْرِ۔ فِیْ الْحُرُوْفِ وَکَیْفِیَّتِھَا مِنْ تَخْفِیْفٍ وَتَشْدِیْدٍ وَغَیْرِھَا)) [1] ’’قراءات سے مراد، الفاطِ وحی کا وہ اختلاف ہے، جو حروف اور تخفیف وتشدید وغیرہ جیسی کیفیات میں مذکور ہے۔‘‘ اس تعریف کا خلاصہ یہ ہے کہ قراءات مختلف فیہ الفاظ کے ساتھ مختص ہیں، جبکہ بعض اہل علم قراءات کے دائرہ میں متفق علیہ الفاظ کو بھی شامل کرتے ہیں۔ جیسا کہ ان کی علم قراءات کی تعریف سے معلوم ہوتا ہے۔ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ((الْقِرَآئَ اتُ: عِلْمٌ بِکَیْفِیَّۃِ أَدَآئِ کَلِمَاتِ الْقُرْآنِ وَاخْتِلَافِھَا مَعْزُوًّا لِنَاقِلِہٖ))[2] ’’قراءات سے مراد، کلمات قرآنیہ کی ادائیگی کی کیفیت اور ناقلین کی طرف منسوب ان کے اختلافات کا علم ہے۔‘‘ امام دمیاطی رحمہ اللہ قراءات کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ((عِلْمٌ یُعْلَمُ مِنْہُ اِتِّفَاقُ النَّاقِلِیْنَ لِکِتَابِ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَاخْتِلَافُہُمْ فِی الْحَذْفِ وَالْاِثْبَاتِ وَالتَّحْرِیْکِ وَالتَّسْکِیْنِ وَالْفَصْلِ
[1] البرہان: ۱/۳۱۸. [2] منجد المقرئین: ۳، بعض نسخوں میں ((بعزو النافلۃ)) کے الفاظ ہیں، جو کہ تحریف ہے۔ درست الفاظ وہی ہیں جو ہم نے اوپر ذکر کیے ہیں.