کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 58
کے ساتھ اختلاف کے باوجود ان پر جرح نہیں کی۔ ابن الندیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام ابن شنبوذ رحمہ اللہ ، امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کا مقابلہ تو کرتے تھے، لیکن ان پر تنقید نہیں کرتے تھے۔‘‘ [1] مذکورہ کلام سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ابھی تک قابل تحقیق ہے، کیونکہ رسم بھی قراء ت کی مانند سنت متبعہ ہے۔ جیسا کہ غیث النفع میں منقول ہے: ’’جب رسم اور قراء ت متواترہ یا قراء ت مشہورہ متعارض ہوں… جیسا کہ پہلے مثالوں میں گزر چکا ہے… تو قراء ت کو لیا جائے گا۔‘‘[2] یہ بات ہم قراء کرام کے اس طریقہ سے اخذ کر سکتے ہیں، جو امام ابن الحاج رحمہ اللہ نے ’’المدخل‘‘ میں ذکر کیا ہے، علامہ صفاقسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابن الحاج رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’کسی شخص کے لیے اس وقت تک جائز نہیں ہے کہ وہ مصحف کی تلاوت کرے، جب تک وہ قراء ت کی وجوہ یا رسم مصحف اور اس کی مخالف قراء ت کی تعلیم حاصل نہیں کر لیتا، اگر کوئی اس کے علاوہ طریقے پر چلتا ہے تو وہ اجماع امت کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘[3] یا ہم یہ کہہ لیں کہ یہ چند کلمات اس (رسم مصحف کی موافقت والی) شرط سے مستثنیٰ ہیں، ان کے علاوہ میں مخالفت جائز نہیں ہے۔
[1] الفہرست: ۳۱. [2] غیث النفع: ۲۱۸. [3] غیث النفع: ۲۱۸.