کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 56
ابن الجزری رحمہ اللہ (ت ۸۳۳ھ) شامل ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ جب تواتر حاصل ہو جائے تو آخری دو ارکان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔[1] مجھے ایسے لگتا ہے کہ شاید علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ کو یہ بات یاد نہیں رہی کہ آخری دو ارکان کی شرط بطور احتیاط لگائی گئی ہے… جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اور علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ نے خود بھی بیان کیا ہے… کیونکہ ان دونوں ارکان کی عدم موجودگی بسا اوقات قراء ت میں ضعف تک پہنچا دیتی ہے۔ امام مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ بھی روایت کے مشہور ہونے کو کافی سمجھتے ہیں، مگر انہوں نے ایک دوسری تقسیم بیان فرمائی ہے۔ وہ ہر اس روایت کو جو عربیت اور رسم مصحف دونوں کے موافق ہو، کو قرآن اور قراء ت سمجھتے ہیں، جبکہ ہر اس روایت، جو عربیت کے تو موافق ہو، مگر رسم مصحف کے مخالف ہو، یا رسم مصحف کے موافق ہو اور عربیت کے مخالف ہو، کو قراء ت تو سمجھتے ہیں، قرآن نہیں سمجھتے۔[2] بعض اہل علم سند کی شرط نہیں لگاتے، بلکہ ثبوت قراء ت میں رسم مصحف کی موافقت کو ہی کافی سمجھتے ہیں، جیسے ابن مقسم رحمہ اللہ (ت ۳۵۴ھ) علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’غایۃ النہایۃ‘‘[3] میں فرماتے ہیں کہ ابن مقسم رحمہ اللہ سے منقول ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’ہر وہ قراء ت جو رسم مصحف اور عربی وجہ کے موافق ہو، اس کی تلاوت کرنا جائز ہے۔ خواہ اس کی کوئی سند نہ ہو۔‘‘ ایسی آراء کے ساتھ مناقشہ آگے ’’مصادر القراءات‘‘ کی فصل میں آرہا ہے۔ لیکن صحت سند کے درجہ میں ہونے والا اختلاف، کہ وہ مشہور ہو مستفیض ہو یا متواتر ہو، قرونِ آخر تک قائم رہا۔ تیسرے رکن (رسم مصحف کی موافقت) کی شرط لگانے میں امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کے
[1] النشر: ۱/۱۳. [2] الإبانۃ: ۴۸، ۵۰. [3] غایۃ النہایۃ: ۱/۱۲۴.