کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 55
’’پھر ان مذکورین (یعنی قراء سبعہ) کے بعد بے شمار قرائے کرام سامنے آئے، جو مختلف ملکوں میں پھیل گئے، اور گروہ در گروہ ایک دوسرے کے پیچھے آتے رہے۔ ان کے طبقات معروف اور صفات مختلف تھیں، ان میں سے بعض تلاوت میں مضبوط اور روایت و درایت میں مشہور تھے۔ اور بعض ان اوصاف میں سے کسی ایک وصف میں کوتاہی کرنے والے تھے۔ جب ان میں اختلاف زیادہ ہوگیا، ضبط کمزور پڑ گیا، خرابی عام ہوگی اور قریب تھا کہ باطل حق کے ساتھ مل جاتا، تو امت کے کبار علماء اور آئمہ کرام اُٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے انتہائی محنت کے ساتھ ان اصول وارکان کی روشنی میں حق کو واضح کیا، حروف و قراءات کو جمع کیا، وجوہ اور روایات کو ان کے ناقلین کی طرف منسوب کیا اور مشہور وشاذ اور صحیح و ضعیف کے درمیان امتیاز کر دیا۔‘‘[1] پھر اس معیار میں مزید کچھ ترقی ہوئی اور اس کی دوسری اور تیسری شرط میں وسعت پیدا کر دی گئی، جیسا کہ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ [2] ۱۔ اس کی سند صحیح ہو۔ ۲۔ وہ عربیت کے موافق ہو، خواہ کسی ایک وجہ میں۔ ۳۔ وہ مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے موافق ہو، خواہ احتمالاً ہی ہو۔ پھر ان کا صحت سند کے مرتبہ میں اختلاف ہوگیا، بعض نے اس میں تواتر کی شرط لگا دی، یہ دلیل پیش کرتے ہوئے کہ یہ قرآن ہے اور قرآن تواتر کے بغیر ثابت نہیں ہوتا۔ جبکہ دیگر اہل علم نے اس کے مشہور (مستفیض) ہونے پر ہی اکتفاء کر لیا، کیونکہ مشہور روایت قراءات قرآنیہ کے ثبوت میں مطلوب قطعیت کا فائدہ دیتی ہے۔ مشہور پر اکتفاء کرنے والوں میں امام ابو شامہ رحمہ اللہ (ت ۶۶۵ھ) [3] ، اور علامہ
[1] النشر: ۱/۹. [2] م۔ ن. [3] النشر: ۱/۱۳.