کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 54
میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی، جیسا کہ امام مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ اور اس کا مقصد قراءات غیر صحیحہ، ضعیف روایات، اور غیر متواتر روایات کو قراءات متواترہ میں شامل ہونے سے بچانا تھا، کیونکہ وہ قطعی سند سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے قرآن کہلانے کا حق نہیں رکھتیں۔ کیونکہ قدیم معیار کی تیسری شرط… جس پر پہلے بات ہو چکی ہے … بسا اوقات ضبط و حفاظت کی اس ذمہ داری کو ادا کرنے سے قاصر تھی چنانچہ قراء نے اس کو زیادہ دقیق اور مقصد کی ادائیگی پر زیادہ قادر شرط سے تبدیل کردیا۔ اور اب یہ معیار سامنے آیا کہ قراء ت درج ذیل تین شرائط و ارکان پر مشتمل ہو: (۱) صحت سند (۲) موافقت عربیت (۳) موافقت رسم مصحف عثمانی امام الکواشی الموصلی رحمہ اللہ (ت ۶۸۰ھ) فرماتے ہیں: ہر وہ قراء ت جس کی سند صحیح ہو، اس کی وجہ عربیت میں قوی ہو اور اس کا لفظ مصحف امام کے خط کے موافق ہو، وہ حدیث مبارکہ میں منقول سبعہ احرف میں سے ہے، خواہ اسے ستر ہزار (۷۰۰۰۰) راوی اکٹھے یا متفرق طور پر روایت کریں۔ اس معیار پر پورا اترنے والی ہر قراء ت، مقبول ہے، خواہ وہ سات سے منقول ہو یا سات ہزار سے منقول ہو۔ اور جب ان شروط ثلاثہ میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو تو وہ قراء ت شاذہ ہے۔ [1] اس معیار کی روشنی میں انہوں نے قراءات کو دو اقسام میں تقسیم کر دیا: ۱۔ صحیحہ، جن میں مذکورہ تینوں شروط پائی جاتی ہوں۔ ۲۔ غیر صحیحہ، جن میں مذکورہ تینوں شروط میں سے کوئی ایک مفقود ہو۔ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اس معیار کو وضع کرنے کے عوامل پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
[1] النشر: ۱/۴۴.