کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 52
٭ الجامع فی القراءات العشر لنصر بن عبدالعزیز الفارسی رحمہ اللہ (ت۴۶۱ھ) ٭ الروضۃ فی القراءات الإحدی عشرۃ للحسن بن محمد البغدادی رحمہ اللہ (ت ۴۳۸ھ) ٭ البستان فی القراءات الثلاث عشرۃ لابن الجندی رحمہ اللہ (ت ۷۶۹ھ) ٭ الکامل لیوسف بن علی الھذلی رحمہ اللہ (ت ۴۶۵ھ)، آپ نے اس میں آئمہ کرام کی پچاس قراءات اور ایک ہزار چار سو انسٹھ (۱۴۵۹) طرق جمع فرمائے ہیں۔ ٭ اور آخر میں ہم امام البناء الدمیاطی رحمہ اللہ (ت ۱۱۱۷ھ) کی کتاب ’’اتحاف فضلاء البشر فی القراءات الأربع عشر‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ تدوین قراءات کا یہ مرحلہ چوتھی صدی ہجری سے لے کر بارہویں صدی ہجری تک پھیلا ہوا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ یہ کتب امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کی جمع کردہ قراءات سبعہ پر اثر انداز نہ ہوسکیں، اور قراءات سبعہ ہی مشہور و معروف اور بحث و تدریس کا مرکز و محور قرار پائیں۔ ان مؤلفین نے اختیار قراءات کے سلسلے میں درج ذیل ارکان پر اعتماد کیا: ۱۔ عربیت میں اس وجہ کی قوت ۲۔ رسم عثمانی کی موافقت ۳۔ عامۃ الناس کا اتفاق امام مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ اس کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قراءات سبعہ کے سبب، دیگر قراءات اور ان کے بعد میں آنے والوں کے اختیارات کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ امام یعقوب حضرمی رحمہ اللہ امام عاصم الجحدری رحمہ اللہ ، امام ابوجعفر رحمہ اللہ اور امام شیبۃ بن نصاح رحمہ اللہ کی قراءات اور امام ابو حاتم رحمہ اللہ ، امام ابوعبید رحمہ اللہ ، امام مفضل رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ ہر شہر کے اہل علم کے اختیارات کو ترک نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ اختیارات ایک جماعت سے پڑھ کر منتخب کیے تھے۔ ہر شخص نے جو پڑھا اور روایت کیا، اس کو اپنا اختیار بنا لیا۔ امام طبری رحمہ اللہ کا بھی ایک اختیار ہے۔ انہوں نے عموما ایسے حروف کو اختیار کیا ہے، جن میں درج ذیل تین اشیاء جمع ہوں۔