کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 41
مذکورہ اسباب اور قراء کرام کی چار گروہوں میں تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اہم معاملہ تھا، جس نے امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کو قراءات سبعہ کی جمع و تدوین پر مجبور کیا۔ اور آپ کا مقصود قراءات قرآنیہ کے منہج کی پابندی کرنا تھا، تاکہ وہ مَوْثُوْقٌ بِہ نقل سے نکل کر مَشْکُوْکٌ فِیْہِ نقل میں داخل نہ ہو جائیں، یا طریق نقل و روایت سے نکل کر شخصی اجتہادات کے راستے پر نہ چل پڑیں۔
اس امر کی تائید قرائے سبعہ کی علمی شہرت اور ان کی قراءات پڑھنے پر لوگوں کے اتفاق سے ہوتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسے امام ابن مجاہد رحمہ اللہ کی علمی پختگی، اور ثقاہت کی تائید بھی حاصل ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابن مجاہد رحمہ اللہ ثقہ اور حجت ہیں۔
امام ابو عمرو دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’امام ابن مجاہد رحمہ اللہ اپنی وسعت علمی، شاندار فہم و فراست، صدق کلام اور تدوین قواعد کے سبب اپنے فن میں، اپنے زمانے کے تمام معاصرین پر فائق تھے۔‘‘[1]
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’آپ کا مقام بلند اور معاملہ مشہور ہوگیا، آپ دینداری، حافظہ اور خیر وبھلائی میں اپنے معاصرین پر فائق ہوگئے۔ میں شیوخ قراءات میں کسی ایسے شیخ کو نہیں جانتا جو آپ سے زیادہ تلامذہ والا ہو، اور طلباء کا جو رش آپ کے پاس ہوتا تھا، کسی دوسرے کے پاس نہ ہوتا تھا۔‘‘ [2]
ابن الندیم فرماتے ہیں:
’’آپ بلا اختلاف اپنے زمانے کی یگانۂ روزگار شخصیت تھے، آپ اپنے علم وفضل، دیانتداری اور علوم قرآن و قراءات کی معرفت کے باوجود مؤدب، نرم دل، خوش طبع اور روشن دماغ تھے۔‘‘ [3]
[1] الفہرست: ۳۱.
[2] معفیۃ القراء: ۱/۲۱۷.
[3] غایۃ النہایۃ: ۱/۱۴۲.