کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 40
۱۔ بعض وہ ہیں جو اعراب، وجوہ اعراب، قراءات، لغات اور معانی قرآن کے عالم، قراءات کے عیوب سے آگاہ، اور روایات کے صحت و سقم کو جاننے والے ہیں۔ یہی وہ آئمہ کرام ہیں، جن کے پاس ہر شہر کے مسلمان حفاظ کرام دوڑے چلے آتے ہیں۔ ۲۔ بعض وہ ہیں جو اعراب کو جانتے ہیں اور اس میں غلطی نہیں کرتے، لیکن ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی علم نہیں ہے۔ یہ اس دیہاتی آدمی کی مانند ہیں جو اپنی لغت میں پڑھتا ہے، اور اپنی زبان کو پھیرنے پر قدرت نہیں رکھتا۔ وہ صرف اپنے کلام پر پختہ ہوتا ہے۔ ۳۔ بعض وہ ہیں جو استاد سے سنے ہوئے کو اداء کر لیتے ہیں، لیکن اعراب وغیرہ کچھ نہیں جانتے۔ ایسے حفاظ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھول جاتے ہیں اور اعراب میں مشابہت اور ایک ایک آیت میں ضمہ، فتحہ اور کسرہ کی کثرت کے سبب اعراب کو ضائع کر دیتے ہیں۔ کیونکہ نہ تو وہ علوم عربیہ کو جانتے ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں معانی قرآن سے آگاہی ہوتی ہے، جس کی طرف وہ رجوع کرسکیں۔ ان کا سارا اعتماد حفظ وسماع پر ہوتا ہے، اور بسا اوقات حافظ نے جو سنا ہوتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور حروف اس پر مشابہ ہو جاتے ہیں، چنانچہ وہ ایسی غلطیاں کرتا ہے، جنہیں وہ جانتا نہیں ہوتا۔ پھر وہ اپنی ان غلطیوں کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہوئے خود بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ لوگوں میں اسے سچا سمجھ کر اس سے یہ سیکھ لیا جائے حالانکہ اسے اس میں نسیان و وہم ہوا ہو اور اس نے ان غلطیوں پر اصرار جاری رکھا ہو۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے کسی ایسے شخص سے پڑھا ہو، جو بھول چکا ہو اور اعراب ضائع کر چکا ہو اور اسے وہم ہوگیا ہو۔ ایسے حفاظ کی قراء ت کی نہ تو پیروی کی جاتی ہے اور نہ ہی ان کی نقل سے حجت پکڑی جاتی ہے۔ ۴۔ بعض وہ ہیں جو اپنی قراء ت کے اعراب، معانی اور لغات کو جانتے ہیں، مگر انہیں قراءات قرآنیہ، لوگوں کے اختلاف اور آثار کا علم نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ اپنے علم اعراب کی بنیاد پر بعض ایسے حروف پڑھ لیتے ہیں، جو لغت عرب میں تو جائز ہوتے ہیں، مگر سلف سے ثابت نہیں ہوتے۔ چنانچہ ایسے حفاظ بدعتی ہوتے ہیں۔