کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 39
شہروں کی طرف بھیجے گئے مصاحف کے احتمالی رسم میں اختلاف زیادہ ہوگیا، تو اہل بدعت نے اپنی بدعات کو فروغ دینے کے لیے حرام وجوہ کی تلاوت کرنا شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں نے اس امر پر اجماع کرلیا کہ وہ صرف ثقات آئمہ کرام ہی کی قراءات پڑھیں گے، جنہوں نے قراء ت قرآن کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ چنانچہ انہوں نے ان مذکورہ شہروں میں سے ایسے آئمہ کرام کا انتخاب کیا جو ثقاہت و امانت اور عقل ونقل میں مشہور تھے، تعلیم و تعلم قراءات میں ان کی عمریں کھپ چکی تھیں، ان کا معاملہ معروف ہو چکا تھا، اہل شہر کا ان کی عدالت پر اجماع تھا، اور ان کی قراء ت رسم مصحف سے خارج نہیں تھی۔‘‘[1]
محمد جواد العاملی ( ۱۲۲۶ھ) ’’مفتاح الکرامۃ‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’جب راویوں کی بہت زیادہ کثرت کی وجہ سے، ان کو ضبط کرنے سے ہمتیں پست ہوگئیں، تو لوگوں نے خط مصحف کے موافق قراءات پر اکتفاء کرلیا، جن کا ضبط آسان تھا، چنانچہ وہ ضبط و امانت میں مشہور، تعلیم قراءات کا لمبی عمر تک اہتمام کرنے والے، اور متفق علیہ قراء کی طرف متوجہ ہوئے اور مذکورہ پانچوں شہروں میں سے ہر شہر سے ایک ایک امام منتخب فرمالیا۔ وہ امام نافع رحمہ اللہ ، امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، امام ابو عمرو رحمہ اللہ ، امام ابن عامر رحمہ اللہ ، امام عاصم رحمہ اللہ ، امام حمزہ رحمہ اللہ اور امام کسائی رحمہ اللہ ہیں۔ [2]
امام ابن مجاہد رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’السبعۃ‘‘ کے مقدمہ میں صفحہ ۴۵ پر اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حاملین قرآن کی چار اقسام ہیں:
[1] اتحاف فضلاء البشر: ۵، ۶.
[2] مفتاح الکرامۃ: ۲/۳۹۱.