کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 31
نے رسم کے موافق وجوہ کو جمع فرمادیا، لوگ ایک لمبے عرصے تک اسے پڑھتے رہے، یہاں تک کہ امام ابن مجاہد رحمہ اللہ نے اپنی معروف کتاب ’’السبعۃ‘‘ لکھی۔ [1] ۲۔ ابان بن تغلب کوفی رحمہ اللہ (ت ۱۴۱ھ) ابن ندیم ’’الفہرست‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ابان بن تغلب رحمہ اللہ کی کتب میں سے ’’ کتاب معانی القرآن‘‘ اورلطیف ’’کتاب القراءات‘‘ قابل ذکر ہیں۔ [2] ۳۔ مقاتل بن سلیمان رحمہ اللہ (ت ۱۵۰ھ)، آپ کی کتاب کا نام ’’کتاب القراءات‘‘ ہے۔ ۴۔ ابو عمرو بن العلاء رحمہ اللہ (ت ۱۵۴ھ)، آپ کی بھی کتاب کا نام ’’کتاب القراءات‘‘ہے۔ پر ایک کتاب ہے۔ ۵۔ حمزہ بن حبیب الزیات رحمہ اللہ (ت ۱۵۶ھ)، آپ کی بھی کتاب کا نام ’’القراء ۃ‘‘[3] ہے۔ ۶۔ زائدہ بن قدامہ ثقفی رحمہ اللہ (ت ۱۶۱ھ)، آپ کی بھی کتاب کا نام ’’کتاب القراءات ‘‘ ہے ۔ ۷۔ عبدالحمید بن عبدالمجید الاخفش الاکبر رحمہ اللہ (ت ۱۷۷ھ) ان کے بارے میں امام ابوعلی اصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’انہوں نے قراءات اور عربیت پر بہت زیادہ کتب لکھی ہیں۔‘‘ [4] ۸۔ ہارون بن موسیٰ الأعور رحمہ اللہ (ت ۱۷۰ھ اور ۱۸۰ھ کے درمیان) کے بارے علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ ’’غایۃ النہایۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حاتم السجستانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’بصرہ میں وجوہ قراءات کی سماعت اور تالیف، شاذ کی تلاش اور اسناد کی تحقیق کرنے والا سب سے پہلا شخص ہارون بن موسیٰ الأعور ہے، وہ قراء میں
[1] مقدمتان فی علوم القرآن: ۲۷۵. [2] الفہرست: ۲۲۰. [3] انظر ’’جبیرۃ القرا ء ات ‘‘ للشیخ صہیہ احمد (ع ف). [4] أبو علی فارسی: ۱۸ نقلاً عن منجد المقرئین: ۴.