کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 24
لے کر حجاج بن یوسف کے زمانے تک لوگوں کو تعلیم دیتے رہے، جس کا عرصہ تقریباً ستر ۷۰ سال بنتا ہے۔ [1]
آپ سے پہلے وہاں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ موجود تھے، جنہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بطور معلم اور وزیر بناکر بھیجا تھا۔ آپ کے اصحاب و تلامذہ کو (سُرُجُ الْکُوْفَۃِ) ’’کوفہ کے سورج‘‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ وہ آپ سے قرآن مجید پڑھتے اور اسے لوگوں کو پڑھاتے تھے، اور آپ سے علم حاصل کرکے لوگوں میں پھیلا دیتے تھے۔ [2]
۳۔ سیدنا عامر بن قیس رضی اللہ عنہ (متوفی ۵۵ھ کے لگ بھگ) کو بصرہ روانہ کیا۔
۴۔ سیدنا مغیرہ بن ابو شہاب مخزومی رضی اللہ عنہ (متوفی تقریبا ۷۰ھ) کو شام روانہ کیا۔
۵۔ اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (ت ۴۵ھ) کو مدینہ منورہ میں متعین فرما دیا۔ [3]
ان معلّمین کو روانہ کرنے کا یہ عمل ۲۵ ہجری میں وقوع پذیر ہوا، جیسا کہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کا قول ہے، یا پھر ۳۰ ہجری کی حدود میں واقع ہوا جیسا کہ علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں۔ [4]
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ان معلّمین کو روانہ کرتے وقت اس امر کا خصوصی اہتمام فرمایا کہ ہر مصحف کے ساتھ ایسا قاری روانہ کیا جائے، جس کی قراء ت غالب طور پر اس شہر والوں کی قراء ت کے موافق ہو۔ [5]
کیونکہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے بعض حروف میں قراء ا ت معتبرہ کے اختلافات کے موافق الگ الگ رسم میں مصاحف کی کتابت کا حکم دیا تھا۔ جیسا کہ لفظ ﴿قَالَ مُوْسٰی﴾ (القصص:۳۷) کو مصحف مکہ میں واؤ کے بغیر ﴿قَالَ مُوْسٰی﴾ جبکہ دیگر مصاحف میں واؤ کے ساتھ ﴿وَقَالَ مُوْسٰی﴾ لکھا گیا ہے۔
[1] فضائل القرآن لابن کثیر: ۶۴.
[2] حیاۃ الشعر فی الکوفۃ: ۲۴۴.
[3] تاریخ القرآن للزنجانی: ۶۷، فی الدراسات القرآنیۃ: ۱۲.
[4] لطائف الإشارات: ۱/۵۸.
[5] مناہل العرفان: ۱/۴۰۶.