کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 22
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کوفہ بھیجا تھا۔ جیسا کہ آگے اشارتاً اس کا ذکر آئے گا۔ واضح رہے کہ قراءات کا یہ مرحلہ پہلی صدی ہجری کے نصف سے زیادہ نہیں ہے۔ حفاظ صحابہ کرام، جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے، میں سے سب سے آخر میں سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، اور ان کی وفات ۴۵ھ میں ہوئی۔ ساتواں مرحلہ: اس مرحلہ پر قراءات قرآنیہ ایک باقاعدہ مضمون کے طور پر سامنے آئیں، جسے پڑھا پڑھایا جاتا اور اخذ کیا جاتا تھا۔ اس میدان میں جن حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اور ان سے پڑھنے والوں کے اسماء گرامی کا تذکرہ گزر چکا ہے، اب مختلف وجوہ قراءات کو ان کی جانب روایت اور نقل کیا جانے لگا۔ اس کی دلیل امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ کی کتاب ’’القراءات‘‘ کے شروع میں مذکور ان صحابہ کرام کے اسماء گرامی ہیں، جن کے بارے میں امام ابو عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان سے قراءات قرآنیہ کی کچھ وجوہ منقول ہیں۔ ان صحابہ کرام کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں: سیدنا سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ (ت ۱۲ھ)، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (ت ۱۳ھ)، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (ت ۲۳ھ)، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (ت ۳۲ھ)، سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (ت ۳۵ھ)، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ (ت ۳۵ھ)، سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ (ت ۳۶ھ)، سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابو طالب (ت ۴۰ھ)، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ (ت ۵۱ھ)، سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ (ت ۵۸ھ)، سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ (ت ۵۹ھ)، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ (ت۶۰ھ)، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (ت ۶۳ھ)، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ (ت ۶۵ھ)، سیدنا عبداللہ بن