کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 17
’’انصار کے ستر (۷۰) نوجوانوں کو ’’قراء کرام‘‘ کہا جاتا تھا، وہ رات کے وقت مدینہ منورہ کی کسی سمت میں جمع ہو جاتے، قرآن مجید کا دَور کرتے اور نماز ادا کیا کرتے تھے۔[1]
یہی وہ صحابہ کرام تھے، جو ’’بئر معونہ‘‘ کے واقعہ میں شہید کر دئیے گئے تھے۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی کے چھتیس (۳۶ ) ماہ بعد ماہ صفر میں پیش آیا تھا۔
طبقات ذہبی رحمہ اللہ میں منقول ہے کہ:
((کَانَ أُبَیٌّ یَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِیْ ثَمَانٍ)) [2] (إسنادہ صحیح)
’’سیدنا أبی رضی اللہ عنہ آٹھ (دنوں) میں قرآن مجید ختم کیا کرتے تھے۔‘‘
اس نام کے اصطلاح یا شبہ اصطلاح کے طور پر عام ہونے کا سبب وہ احادیث مبارکہ ہیں، جنہیں امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’معرفۃ القراء: ۱/۳۳‘‘ میں نقل کیا ہے۔
۱۔ سیدنا ابو قلابہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((أَقْرَؤُہُمْ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ)) [3]
’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان میں سے سب سے بڑے قاری ہیں۔‘‘
۲۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
((اِسْتَقْرِؤُا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَۃٍ: عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَ سَالِمٍ مَوْلٰی أَبِیْ حُذَیْفَۃَ وَمَعَاذِ بْنِ جَبَلٍ وَأُ بَیِّ بْنِ کَعْبٍ)) [4]
’’تم چار لوگوں سے قرآن مجید پڑھو، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، سیدنا سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ سے، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے۔‘‘
[1] المغازی: ۲/۳۴۷.
[2] معرفۃ القراء: ۱/۳۳.
[3] ایک روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔ ((أقرؤکم أبی بن کعب)) ’’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تم میں سے سب سے بڑے قاری ہیں۔‘‘.
[4] صحیح بخاری میں ((خذوا القرآن…)) ۶/۲۲۹ کے الفاظ ہیں.