کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 16
اس نام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے اسلامی معاشرہ میں قراء کرام کو ایک مخصوص امتیاز حاصل تھا۔ اور ’’ دَارُ الْقُرَّاء‘‘ کسی مدرسہ یا درسگاہ کے مشابہ جگہ کا نام تھا۔ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ یہ نام قراءات اور قراء کے پھیل جانے کے بعد عام ہوا ہو۔ اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ’’ مقریٔ‘‘ کے نام سے معروف تھے۔ حافظ مغلطای رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ وہ پہلے صحابی رسول ہیں، جنہیں ’’ الْمُقْرِیُٔ‘‘ کے لقب سے نوازا گیا، آپ کو یہ لقب اس وقت ملا، جب ’’عقبہ اولیٰ‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قبیلہ اوس اور خزرج کو قرآن مجید کی تعلیم کے لیے مدینہ منورہ روانہ فرمایا۔‘‘[1]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قصہ اسلام میں مذکور ہے کہ:
((وَکَانَ خَبَّابُ ابْنُ الْأَرَتِّ یَخْتَلِفُ اِلٰی فَاطِمَۃَ بِنْتِ الْخَطَّابِ یُقْرِئُھَا الْقُرْآنَ)) [2]
’’سیدنا خباب بن أرت رضی اللہ عنہ (سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بہن) سیدہ فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آتے جاتے تھے، اور انہیں قرآن مجید پڑھایا کرتے تھے۔‘‘
چوتھا مرحلہ:
چوتھا مرحلہ ایک ایسی جماعت کے وجود میں آجانے پر مشتمل ہے، جو آپس میں قرآن مجید کی تلاوت کی پابندی اور ایک دوسرے کو اس کی تعلیم دینے کی وجہ سے ’’قراء‘‘ کے نام سے معروف تھی۔ اور یہی… میرے خیال کے مطابق… اس نام اور اصطلاح کی ابتداء تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قراءات قرآنیہ اپنے آغاز سے لے کر اس چوتھے مرحلہ پر پہنچنے تک کس قدر معاشرے میں رائج ہو چکی تھیں، اور ان کا کس قدر زیادہ پھیلاؤ ہو چکا تھا۔
امام واقدی رحمہ اللہ کی کتاب ’’المغازی‘‘ میں مذکور ہے:
[1] غایۃ النہایۃ: ۲/۲۹۹.
[2] سیرۃ النبی لابن ہشام: ۱/۳۶۶.