کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 15
بھول چوک سے محفوظ ہوگئے۔ چنانچہ آپ نے اسے امت کو یاد کروانا شروع کردیا۔ آپ ہمیشہ ان کے سامنے قرآن مجید پڑھتے اور انھیں پڑھاتے رہے، انہیں اس سے نصیحت کرتے رہے اور فرائض واحکام کا علم بتلاتے رہے، اور اس کی وہ مناسب تفسیر فرما تے رہے جو اس کی تلاوت کے بعد ہی جانی جا سکتی تھی۔‘‘ [1] ۳۔ تیسرا مرحلہ: قراءات قرآنیہ کا تیسرا مرحلہ، مسلمانوں کے باہم ایک دوسرے کو قرآن مجید کی تعلیم دینے پر مشتمل ہے۔ اور یہ تعلیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم وارشاد پر دی جاتی تھی۔ اور آپ نے خود بھی یہ سلسلہ قائم رکھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ ابو اسحاق سے، وہ سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سب سے پہلے سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ہمارے پاس (مدینہ منورہ) تشریف لائے، وہ دونوں ہمیں قرآن مجید پڑھاتے تھے، پھر سیدنا عمار رضی اللہ عنہ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کرلیا تو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تعلیم دینے کے لیے چھوڑ دیا۔ جب بھی کوئی شخص ہجرت کرکے مدینہ منورہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حفاظ کرام میں سے کسی آدمی کے حوالے کر دیتے تاکہ وہ اسے قرآن مجید سکھلائے۔‘‘[2] سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی مدینہ آمد والی روایت میں منقول ہے کہ وہ ’’ دَارُ الْقُرَّاء‘‘ میں اترے۔ [3]
[1] مقدمتان فی علوم القرآن: ۲۳۔ اسی مقدمہ میں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک سورت کی تعلیم دینے کی ترغیب دیا کرتے تھے، جو مسلمانوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینے کے سلسلہ میں ایک روشن دلیل ہے۔ یہ حدیث طویل ہے اسے آپ اس مقدمہ کے صفحہ ۶۴ سے ۷۴ تک دیکھ سکتے ہیں. [2] تاریخ الإسلام للزنجانی: ۳۵. [3] فجر الإسلام: ۱۴۲.