کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 121
ساتویں فصل: قراءات و تجوید تلاوت قرآن مجید سے منسلک مسائل کے مطالعہ میں علم تجوید اور علم قراءات باہم ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جملہ موضوعات میں یہ باہم خلط ملط ہوتے ہیں اور ان موضوعات کا ایک مشترکہ میدان ہوتا ہے۔ قراءات و تجوید کے درمیان باہمی فرق کو واضح کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی تعریف اور اس کے موضوعات کے عنادین بیان کر دئیے جائیں، اور آخر میں متفق علیہ اور مختلف فیہ نقاط کو بیان کر دیا جائے۔ قراءات کی تعریف: علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((اَلْقِرَآئَ اتُ: عِلْمٌ بِکَیْفِیَّۃِ أَدَآئِ کَلِمَاتِ الْقُرْآنِ وَاخْتِلَافِھَا مَعْزُوًّا لِنَاقِلِہٖ)) [1] ’’قراءات سے مراد، کلمات قرآنیہ کی ادائیگی کی کیفیت، اور ناقلین کی طرف منسوب اس کے اختلاف کا علم ہے۔‘‘ اس تعریف میں کلمات قرآنیہ سے مراد قراء کے ہاں اصطلاحی طور پر حروف ہیں، یعنی کلمات قرآنیہ میں سے ہر وہ کلمہ جس میں قرائے کرام کا اختلاف ہے، وہ نحویوں کے ہاں خواہ حرف ہو، اسم ہو یا فعل ہو۔ [2] یعنی علم قراءات کلمات قرآنیہ کی ادائیگی کی کیفیت کے مطالعہ پر مشتمل ہے۔ بالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم قراءات کلمہ قرآنی کی لفظی صورت میں بحث کرنا ہے۔ جب ہم کتب
[1] منجد المقرئین: ۳. [2] سراج القاریٔ: ۱۴.