کتاب: قراءات قرآنیہ، تعارف وتاریخ - صفحہ 118
اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے نقاط وحرکات لگاتے وقت ہر مصحف کے شہر والوں کی اس روایت اور قراء ت پر اعتماد کیا، جو انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بھیجے گئے معلمین سے سیکھی تھی۔ یہ بات ہم نے قرائے سبعہ کے اختلافات سے اخذ کی ہے، جو مصاحف کے رسم کے اختلاف پر مبنی ہیں، جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کر آئے ہیں۔ مصاحف پر نقاط و حرکات لگانے کے بعد، ان کو مختلف رنگوں کی روشنائی سے لکھنے کا دور آیا۔ وہ اس طرح کہ مصحف کو قراءات سبعہ میں سے کسی ایک قراء ت میں لکھ دیا جائے، جبکہ باقی قراءات کو تفریق کرنے کے لیے کسی دوسرے رنگ سے لکھ دیا جائے۔ کیونکہ نقاط و حرکات لگ جانے کے بعد کوئی بھی کلمہ ایک سے زائد قراءات کا احتمال نہیں رکھتا تھا۔ [1] اہل مشرق کے ہاں جب روایت حفص عن عاصم رحمہم اللہ کے مطابق قرآن مجید کی کتابت معمول بن گئی تو انہوں نے روایت حفص کو کالی سیاہی، جبکہ دیگر قراءات کو سرخ روشنائی سے لکھنا شروع کر دیا۔ [2] مصحف کی قواعد رسم کے مطابق سب سے پہلی طباعت مصر میں ۱۳۰۸ ھ میں شیخ رضوان بن محمد مخللاتی رحمہ اللہ کے زیر اہتمام وقوع پذیر ہوئی۔ [3] اس مصحف کی کتابت میں بعض اختلافات کی نشاندہی کے بعد مصر کی وزارۃ الأوقاف نے چودہویں صدی ہجری کے چوتھے عشرے میں ایک کمیٹی قائم کی، جس کی جانب سے قواعد رسم کے مطابق تصحیح کرکے اسے دوبارہ طبع کیا گیا۔ اس پر شیخ ازہر کی نگرانی میں جامعہ ازہر ہی کے تین اساتذہ کرام شیخ حفنی ناصیف، شیخ احمد اسکندری اور شیخ مصطفی عنانی نے کام کیا، اور شیخ المقاریٔ المصریۃ شیخ محمد بن علی بن خلف الحسینی اور شیخ الأزہر شیخ ابو الفضل کی اجازت سے ۱۰ ربیع الاوّل ۱۳۳۷ھ کو چھپ کر منظر عام پر آیا۔ [4] پھر ۱۳۴۲ھ ۱۹۲۳ء میں قاہرہ میں فقط روایت حفص عن عاصم میں ایک مصحف طبع ہوا،
[1] غیث النفع: ۳۸. [2] روضات الجنات: ۲۶۳. [3] السبیل إلی ضبط کلمات التنزیل: ۵۷. [4] عبدالحمید حسن، فی ذکری جفنی ناصف، مجلۃ مجمع اللغۃ العربیۃ بالقاہرۃ، ۱۳۹۰ہـ، ۱۹۷۰ء: ۲۶/۴۴.